#تمہاری_مدح_اور_میرا_قلم_ہو
( عشق مجازی سے عشق حقیقی کا سفر )
#آٹھویں_قسط
#از_صالحہ_منصوری
" نایاب ۔۔۔"
جب نایاب کی کار حادثے کا شکار ہوئی تو زارون اپنے کان سے فون لگائے بے اختیار چیخا تھا ۔ وہ بے یقینی سے فون کو دیکھنے لگا ۔ چند منٹ پہلے کسی نے کار کے بریک فیل ہونے کی بات کی اور وہ آواز نایاب کے سوا کسی کی نہیں ہو سکتی تھی ۔ اس نے دو نسوانی چیخیں بھی سنی تھیں اور زارون کا دل بے اختیار دھڑک اٹھا ۔ وہ فوراً اپنی کار کی جانب دوڑ پڑا ۔ کچھ ہی سیکنڈ بعد لوگوں نے دیکھا کہ ایک شخص دیوانہ وار سڑک پر کار دوڑائے جا رہا تھا ۔ زارون کو کچھ پتا نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے لیکن اسے علم تھا کہ وہ آیت کے ساتھ تھی اور یہ بات اذان کو اچھی طرح معلوم ہوگی کہ دونوں کہاں گئی تھیں ۔ یہ خیال آتے ہی اس نے اذان کو کال ملائی ۔ بیل مسلسل جا رہی تھی لیکن وہ کال اٹھا نہیں رہا تھا مگر زارون بار بار اسے کال کر رہا تھا آخر کار چوتھی بیل پر کال اٹھا لی گئی ۔
" یار کیا ہوا ۔۔۔ میں میٹنگ میں تھا ۔" اذان نے فون اٹھاتے ہی کہا ۔
" سب چھوڑ اذان پہلے مجھے بتا نایاب اور آیت کہاں گئیں تھیں ۔" اس کا لہجہ اذان کو نارمل نہیں لگا ۔
" وہ شاپنگ پر گئیں تھیں جہاں جمیل کا شاپ ہے لیکن ہوا کیا ہے بھائی ۔؟" وہ حیران ہوا ۔
" اذان ان کی کار کا بریک فیل ہو گیا تھا میں نے خود سنا تھا ۔ " پھر زارون اسے بتاتا گیا اور اذان ایک دم سے فون کاٹ کر باہر کی طرف بھاگا ۔ اپنی کار کی طرف بھاگتے ہوئے نا جانے کتنی ہی مرتبہ اس کا دل ڈوب گیا اور ڈوب ڈوب کر ابھرا ۔
" نہیں ۔۔ مولا اسے کچھ نا ہو ۔" اس کے لبوں پر ایک ہی دعا تھی ۔
***
جس وقت آیت اور نایاب کی کار کو حادثہ پیش آیا قریب ہی وہاں ایک توصیف نامی شخص کھڑا تھا وہ فورا کار کے پاس آیا تو دونوں لڑکیاں تب تک اپنے ہوش و خرد سے بے گانہ ہو چکی تھیں ۔ اس نے کسی طرح دونوں کو باہر نکالا ۔ نایاب کی داہنی ٹانگ اور کندھا بری طرح متاثر ہوئے تھے جب کہ آیت کے سر سے مسلسل خون بہہ رہا تھا اور ایک ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی ۔ توصیف دونوں کو ایک ساتھ نہیں لے جا سکتا تھا اور مصیبت یہ تھی کہ اس کا فون بھی ڈیڈ ہو چکا تھا ۔ توصیف نے آیت کو اپنے کندھے پر منتقل کیا اور اسے ہسپتال لے جانے کے لئے دوڑ لگا دی کہ واپس آ کر نایاب کو بھی لے جائے گا لیکن جب وہ آیت کو قریبی ہسپتال لے گیا تو وہیں ایڈمٹ کرانے کے چکّر میں الجھ کر رہ گیا ۔ دوسری طرف اذان اور زارون جب انہیں ڈھونڈتے ہوئے وہاں پہنچے تو نایاب اکیلی تھی ۔
" نایاب ۔۔۔ " زارون بھاگتا ہوا اس کے پاس پہنچا اور نبض چیک کرنے لگا جب کہ اذان ادھر ادھر نظریں دوڑاتے مسلسل آیت کو ڈھونڈ رہا تھا ۔
" زا ۔۔ زاروں ۔۔۔ یہاں صرف نایاب ہے ، آیت نہیں ۔" اس نے کار اور ارد گرد چھان مارا لیکن آیت اسے کہیں نہیں ملی ۔
" آیت ت ت ت ۔۔۔۔۔۔۔ " اذان پوری قوت سے چلایا تھا ۔ اس کی سانس اٹکنے لگی تھی اور بے دم ہوتا وجود ایک جھٹکے سے زمین پر آ گرا ۔اسے محسوس ہوا جیسے اس کے ہاتھوں سے زندگی ریت کی مانند پھسل رہی ہو ۔
" اذان ۔۔ اذان ۔" زارون نے اسے جھنجھوڑا ۔ " آیت نایاب کے ساتھ ہی اگر وہ نہیں مل رہی تو نایاب کو ضرور معلوم ہو گا پہلے ہمیں اسے لے جانا چاہئے تاکہ ہمیں پورے واقعے کا صحیح سے علم ہو سکے ۔" اذان خالی خالی نظروں سے اسے دیکھنے لگا لیکن وہ جانتا تھا کہ زارون صحیح کہہ رہا ہے اسے آیت تک پہنچنے کے لئے نایاب کا ہوش میں لانا ضروری ہے ۔ اگلے ہی لمحے وہ دونوں نایاب کو لے کر ہسپتال کی طرف چل دیے ۔ دوسری طرف ان کے جانے کے کچھ دیر بعد جب توصیف واپس آیا تو نایاب کو نا پا کر بیحد حیران و پریشان ہوا ۔ اس نے بہت ڈھونڈا لیکن وہ نا ملی ۔ ناچار توصیف آیت کے پاس واپس چلا گیا جس کی کنڈیشن ڈاکٹرز کافی نازک بتا رہے تھے ۔ دونوں ہی لڑکیاں مختلف ہسپتالوں میں موجود آہستہ آہستہ سانس لے رہی تھیں اور دور کہیں مسجد میں موجود اذان سر بسجود رو رہا تھا ۔ لفظ جب ہونٹوں پر دم توڑ دیتے ہیں تو اشک قلب کی ترجمانی کرنے لگتے ہیں اذان کے ساتھ بھی یہی ہو رہا تھا ۔
" اللّه ۔۔" وہ جیسے سجدے سے سر اٹھانے سے انکاری ہو گیا ہو ۔ بار بار اس کی زبان پر اللّه ﷻ اور نبی ﷺ کا نام آ رہا تھا ۔ " میں نے اس کی وجہ سے ہدایت پائی بیشک تو نے ہی مجھے راہ دی لیکن وہ میرے لئے تیرے حکم سے روشنی بنی، ذریعہ بنی الہی تو مجھ سے یہ روشنی مت چھین ۔ مجھے اندھیروں میں مت چھوڑ میرے اللّه ۔"
دور کہیں ستاروں نے ایک نئی رہ گزر پر قدم رکھا اور ستاروں کی اس نئی گردش میں کاتب تقدیر نے نیا باب لکھنا شروع کیا ۔
***
اسے ہلکا ہلکا ہوش آنے لگا تھا ۔ دھندلی بصارت کے ساتھ اس نے دیکھا کہ قریب کھڑی سفید لباس میں ملبوس کسی عورت نے کہا :
" انہیں ہوش آ رہا ہے ۔" شاید وہ کوئی نرس تھی ۔ نایاب نے آنکھیں بند کر کے دوبارہ کھولیں تو منظر قدرے واضح ہوا ۔ وہ ہسپتال کے اکیلے کمرے میں موجود تھی ۔ نرس بھی باہر جا چکی تھی۔ کچھ دیر میں دروازہ کھلا اور زارون کے ساتھ اذان کمرے میں آتا دکھائی دیا ۔
" کیسی ہو اب ۔؟ کیسا محسوس ہو رہا ہے ۔؟" زارون نے پوچھا ۔
" ٹھیک ہوں ۔" وہ مختصر سا کہہ کر رک گئی اور اذان کے ستے ہوئے چہرے کو دیکھنے لگی ۔
" اذان ۔" نایاب نے اسے مخاطب کیا ۔" آ ۔۔آیت کہاں ہے ۔؟" اذان نے اس سوال پر آنکھیں میچ کر کھولیں اور خود پر قابو کرتے ہوئے اسے دیکھنے لگا ۔
" پہلے یہ بتاؤ کہ تم لوگوں کی کار کو حادثہ کیسے پیش آیا ۔؟" زارون نے اذان کی کیفیت سمجھتے خود ہی سوال کیا تو وہ الجھ کر اسے دیکھنے لگی ۔
" میری ۔۔ میں اور آیت کار میں تھے اور اچانک ہی بریک فیل ہونے سے گاڑی کنٹرول میں ہی نہیں رہی پھر پتا نہیں کیسے ہماری گاڑی الٹ گئی اور پھر ۔۔۔ مجھے کچھ یاد نہیں ۔" نایاب نے ذہن پر زور دیتے سب کچھ کہہ دیا ۔" کیا آیت وہاں نہیں تھی ۔؟" اس کے سوال پر زارون نے نفی میں سر ہلایا اور اذان لمبے لمبے قدم اٹھاتے باہر چلا گیا ۔
***
اسے ہوش آیا تو خود کو کسی غیر مانوس جگہ پر پایا ۔ ذرا دیر بعد جب اس کے حواس صحیح طریقے سے کام کرنے کے قابل ہوئے تو اسے محسوس ہوا جیسے وہ ہسپتال میں موجود ہے ۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا تو ایک نرس پر نگاہ پڑی ۔
" ایکسکیوز می سسٹر ۔"
اس کی نحیف آواز پر نرس فورا مڑی ۔
" اوہ گاڈ شکر ہے آپ کو ہوش آ گیا ۔ " وہ خوشی سے بولی ۔
" میں یہاں کیسے ۔۔؟" آیت کے الفاظ اس کے لبوں پر ٹوٹ گئے ۔
" آپ کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا ، مسٹر توصیف آپ کو یہاں لے کر آے ہیں ۔" نرس نرمی سے بتا رہی تھی ۔ حادثے کا سن کر آیت کی پیشانی پر بل پڑ گئے جیسے کچھ یاد کرنے کی کوشش کر رہی ہو ۔
" میرا ایکسیڈنٹ ہوا تھا ۔؟ " وہ زیر لب دوہرا کر نرس کو دیکھنے لگی ۔" مجھے اس شخص سے ملنا ہے جو مجھے یہاں لایا تھا ۔" آیت کی آنکھوں میں اجنبی پن تھا ۔ جب نرس باہر چلی گئی تو وہ بیڈ سے اٹھ کر کمرے میں لگے آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی ۔ اپنے چہرے پر انگلیاں پھیرتے ہوئے وہ جیسے خود کو پہچاننے کی سعی کر رہی تھی ۔
" کون ہوں میں ۔؟" اپنے عکس کو دیکھتے ہوئے اس نے الجھ کر کہا تھا ۔
***
وہ چلا گیا مجھے چھوڑ کر میں بدل نہ پایا عادتیں ،
اسے سوچنا اسے چاہنا میرا آج بھی معمول ہے ۔
عشق مجازی ہو یا حقیقی ہمیشہ سے وحدانیت کا قائل رہا ہے ۔ اذان نایاب سے ملنے کے بعد سڑکوں پر مارا مارا پھر رہا تھا اور ہر اس جگہ جا جا کر آیت کو ڈھونڈ رہا تھا جہاں جہاں اسے آیت کے ہونے کا گمان تھا ۔ اس کی حالت بہت قابل رحم بن چکی تھی ۔ آیت کو تلاشتے ہوئے وہ کافی دور نکل گیا تھا یہاں تک کہ وہ ماہم میں موجود قربان شاہ علیہ الرحمہ کی درگاہ پر پہنچ گیا ۔ قربان شاہ کی درگاہ ایسی ہے کہ ایک طرف قبرستان واقع ہے اور دوسری طرف آپ کا کا مزار ہے ۔ عشاء کے بعد ہر روز مزار سے کچھ دور محفل سماع ہوتی ہے ۔ اذان خستہ حال ، پرگندہ بال ، ملگجے کپڑے ، چہرے پر یاسیت اور آنکھوں میں نمی لئے وہاں آکر چپ چاپ بیٹھ گیا ۔ دلوں کا حال یا تو صاحب قلب جانے یا پھر صاحب مزار ۔۔۔ ایک طرف آنکھوں سے ٹپکتے آنسو اور خاموش آہیں تھیں تو دوسری طرف لطف و عنایت کےگوہر امنڈ امنڈ کر ہر سائل کی جھولی بھر دیتے تھے ۔
" سنا ہے یہاں ہر مراد پوری ہو جاتی ہے ۔" اذان نے کسی کو کہتے سنا ۔
" بات تو سچ ہے کیوں کہ قربان بابا واقعی واصل الی اللہ تھے ۔ " دوسرے شخص نے جواب دیا ۔
" لیکن یہ محفل سماع تو جائز نہیں ہے نا ۔؟ " پہلے شخص نے الجھ کر پوچھا تو دوسرا مسکرا دیا ۔
" متلعق طور پر فیصلہ نہیں دیا گیا میرے دوست ، کچھ علماء جو روکتے ہیں کہ سماع جائز نہیں وہ احتیاط کی بنا پر کرتے ہیں کہ بندہ الفاظ سمجھ نہیں سکے گا اور بجائے نیکی کے گناہ کی طرف جائے گا ۔"
" اور جو جائز قرار دیتے ہیں ۔؟ ان کے بارے میں کیا کہو گے ۔؟" پہلے شخص نے پوچھا ۔
" جو جائز قرار دیتے ہیں وہ دراصل حقیقت کی بنا پر جائز کہتے ہیں جب کہ سینہ مطلب دل خواہشات نفسانی سے پاک ہو ۔"
" اچھا اب سمجھا ۔۔" پہلے نے مطمئن ہو کر کہا ۔" لیکن بھائی میں کیسے مان لوں کہ جو تم کہہ رہے ہو سب سچ ہے ۔؟"
" میری مت مانو ۔۔ یہ الفاظ جو میں نے کہے یہ ' فقہ و تصوف ' کتاب میں حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے لکھے ہیں ۔ جو پہلی صدی کے مجدد ہیں ۔" دوسرا جواب دے کر سماع کی طرف متوجہ ہو گیا ۔ اذان کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو ۔ سماع بدستور جاری تھا ۔
" دے دے یا نبی ﷺ میرے ، دل کو دلاسہ ،
آیا ہوں دور سے میں ہو کے روہانسا ،
کر دے کرم نبی ﷺ مجھ پہ بھی ذرا سا ،
جب تلک تو ۔۔۔
جب تلک تو سنے گا نا دل کی ، در سے تیرے نا جائیں سوالی ۔ "
اذان کی پلکیں اور زیادہ دیر تک آنسوؤں کا بار نا برداشت کر سکیں اور بے اختیار وہ سر جھکا کر زار و قطار رونے لگا ۔ اس نے اپنے تمام ذرائع استعمال کر لئے بس ایک آخری ذریعہ باقی تھا اور وہ تھا دعا ۔۔۔
امام صاحب نے اسے ایک مرتبہ بتایا تھا کہ جب بہت پریشان ہو جاؤ اور کہیں راستہ نا ملے تو فورا حضور ﷺ کی بارگاہ میں بی بی فاطمہ کا وسیلہ پیش کر دو تمہاری دعا فورا قبول کر لی جائے گی ۔ اذان نے روتے ہوئے یہی کیا اور دعا کو باب اجابت نے خوش آمدید کہہ کر گلے سے لگا لیا تھا ۔
***
No comments:
Post a Comment