Friday, 9 August 2019

Wehshat-e-Ishq By Ramsha Mehnaz ||Episode#2


#وحشتِ_عشق
#بقلم_رمشاء_مہناز
#قسط_نمبر_2

"شزرا تم ابھی تک ہیں بیٹھی ہو نیچے کیوں نہیں آرییں۔۔۔؟؟؟" منال نے اس کے روم میں داخل ہوتے ہوئے کہا شزرا نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
"جی آپی بس میں آرہی تھی نیچے" شزرا نے اپنی پریشانی پہ قابو پاتے ہوئے کہا۔
"آزر کب کے آئے ہوئے ہیں اور تم یہاں بیٹھی ہو۔ تائی امی اور دادو تمہارا پوچھ رہی ہیں۔ جلدی آو نیچے" منال نے اسے جلدی آنے کی تاکید کی اور نیچے واپس چلی گئی۔
شزرا نے اپنے دانتوں سے ناخن کترتے ہوئے کھلے دروازے کی طرف دیکھا اسے آج سب کا سامنا کرنا دنیا کا مشکل ترین کام لگ رہا تھا مگر مرتے کیا نہ کرتے وہ بے دلی سے اٹھی آئینے میں ایک بار خود کو تنقیدی نگاہوں سے دیکھا روشن چہرے پہ سیاہ آنکھیں جگمگا رہی تھیں شاید کسی کے واپس آنے کی خوشی ان سیاہ آنکھوں میں ہلکورے لے رہی تھی اس نے گھبرا کر پلکیں جھکا لیں وہ یہ حقیقت شاید خود سے بھی چھپانا چاہ رہی تھی۔۔۔دل تھا کہ پسلیاں توڑ کے باہر آنے کو بیتاب تھا اس نے اپنی بڑھتی دھڑکنوں پہ قابو پا کے نیچے جانے کے لئے قدم بڑھا دیئے۔
وہ نیچے پہنچی تو سب خوش گپیوں میں مصروف تھے ہر چہرہ آج کھلا ہوا تھا۔
سامنے صوفے پہ آزر اپنی پوری شان سے براجمان تھے شزرا نے اپنی بڑھتی دھڑکنوں پہ قابو پاکے انہیں نیچی آواز میں سلام کیا۔
"السلام وعلیکم" آزر نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔
"وعلیکم السلام ۔۔۔۔۔"آزر نے اس کے سراپے پہ نظریں جمائے سلام کا جواب دیا۔
وہ ان کی نظروں سے کنفیوژ سی ہو گئی اور سر جھکائے منال کے برابر میں بیٹھ گئی آزر کی نگاہیں بار بار بھٹک کے اس کے صبیح چہرے پہ ٹک جاتیں۔
اس نے نظروں کی تپش محسوس کرکے سر اٹھا کے دیکھا تو آزر بے خودی سے اسے ہی تک رہے تھے۔
 "جاؤ بیٹا کھانا لگادو" تائی امی نے دونوں کو مخاطب کرکے کہا تو شزرا فورا اپنی جان بچا کے وہاں سے بھاگی۔
کھانے کے دوران بھی آزر نے اسے کئی بار مخاطب کرنے کی کوشش کی مگر ہر بار وہ مختصر جواب دے کے خاموش ہوجاتی۔
کھانے کے بعد چائے کا دور چلا مگر شزرا سر درد کا بول کر اپنے روم میں آگئی۔
رات گہری ہوتی جارہی تھی گھر میں سب لوگ سو چکے تھے شزرا کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی وہ بستر پہ کروٹیں بدل بدل کے تھک گئی تو جھنجھلا کے اٹھ بیٹھی اور دوپٹہ کندھے پہ ڈال کر دبے پاؤں روم سے نکل کر باہر لان میں آگئی۔
وہ باہر لان میں ٹھنڈی ہوا میں چہل قدمی کرنے لگی چلتے چلتے وہ سوئمنگ پول کے پاس آگئی پورے چاند کا عکس پانی میں جھلمل کر رہا تھا وہ محویت سے کبھی چاند کو اور کبھی پانی میں پڑتے چاند کے عکس کو تک رہی تھی اس بات سے بے خبر کہ وہ اس وقت کسی کی نظروں کے حصار میں قید ہے اور کوئی دنیا جہاں سے بے خبر اسے تکنے میں مصروف ہے۔
کچھ دیر بعد اپنی گردن پہ کسی کی سانسیں محسوس کرکے شزرا گھبرا کے پیچھے پلٹی۔
"آپ۔۔۔۔۔۔آپ یہاں۔۔۔؟" شزرا آزر کو دیکھ کے گھبرا ہی تو گئی تھی اسے اپنی دھڑکنیں اپنے کانوں میں محسوس ہوئیں۔
آزر اپنے چہرے پہ دنیا جہاں کی محبت سمائے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔
"جی میں یہاں" آزر نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
شزرا پلٹ کے جانے لگی۔
"رکو تو۔۔۔کہاں جا رہی ہو؟" آزر نے نرمی سے شزرا کا ہاتھ تھاما۔
"کیا سوچا پھر تم نے؟" آزر نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے ملائمت سے پوچھا۔
"کس۔۔۔کس بارے میں؟" شزرا کی زبان لڑکھڑا رہی تھی۔
"تم جانتی ہو میں کس بارے میں بات کر رہا ہوں" آزر نے خفگی سے اسے دیکھا۔
"مم۔۔۔۔مجھے نہیں پتا" شزرا نے اس کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا۔
"شزرا میری طرف دیکھو" آزر نے اس کے چہرے کا رخ اپنی طرف کرتے ہوئے کہا شزرا کی پلکیں جھکی تھیں۔
"کیا ہوا ہے؟ مجھے صحیح سے بتاو۔۔۔۔تم کیا چاہتی ہو۔۔۔؟" آزر کے لہجے میں زمانے بھر کی محبت سمٹی تھی وہ کسی بھی حال میں شزرا کو کھونا نہیں چاہتے مگر اس کی مرضی کے بغیر بھی کوئی قدم اٹھانے پہ ان کا دل راضی نہیں تھا۔
"وہ میں نے آپی سے اس بارے میں بات نہیں کی۔۔۔پتا نہیں ان کا ری ایکشن کیا ہوگا" شزرا نے ڈرتے ڈرتے اپنے دل کی بات بتائی مگر آزر کی طرف دیکھنے سے اب بھی گریز تھا۔
"بس یہی بات ہے۔۔۔؟" آزر نے گھور کے اس کی طرف دیکھا ان کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لیں اس پاگل لڑکی کو تو پتا بھی نہیں ان کا دل کیسے کیسے واہموں کا شکار ہوا تھا۔
"جی۔۔۔" شزرا نے گردن جھکائے جواب دیا اسے احساس بھی نہ ہوا اس نے اپنی آمادگی ظاہر کردی ہے۔
آزر کے لبوں پہ بے ساختہ مسکراہٹ ابھری۔
"پاگل۔۔۔۔۔۔" آزر زیر لب بڑبڑائے۔
"جی۔۔۔۔۔!!" شزرا نے سر اٹھا کر ناسمجھی سے ان کی طرف دیکھا۔
"کچھ نہیں۔۔۔۔" آزر نے ہنستے ہوئے اس پہ سر پہ ہلکی سے چپت لگائی شزرا نا سمجھی سے ان کی شکل دیکھنے لگی۔
"تم بھی ہنس لیا کو پابندی نہیں ہے تمہارے ہنسنے پہ" آزر نے اسے ہونقوں کی طرح خود کو دیکھتے پا کے کہا شزرا کے گلابی چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
"ویسے تمہیں مجھ سے محبت کب ہوئی۔۔۔؟"آزر نے اس کی طرف جھکتے ہوئے کچھ شرارت سے پوچھا شزرا نے اچھنبے سے ان کی طرف دیکھا۔
"کس نے کہا مجھے آپ سے محبت ہے" شزرا نے گھبراہٹ سے ادھر اُدھر دیکھتے پوچھا مبادہ کوئی سن ہی نہ لے۔
"تمہاری آنکھوں نے اور آنکھیں کبھی جھوٹ نہیں بولتیں" آزر نے اس کی سیاہ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے دھیمے لہجے میں سرگوشی کی شزرا کا دل بے اختیار دھڑک اٹھا وہ نظریں چرا گئی۔
چاند بھی بدلیوں کے پیچھے آنکھیں موندے چھپ چکا تھا ہر سو اندھیرا تھا مگر زمین پہ کھڑے وہ دو وجود محبت کی روشنی سے ہمکنار تھے انہیں اب کسی وقتی روشنی کی ضرورت نہیں تھی۔

____________________________________________________

منال کا دل ایک عجب ہی لے پہ دھڑک رہا تھا سالوں سے وہ جس محبت کو اپنے دل کے نہاں خانوں میں چھپاتی آئی تھی شاید اب اسے منزل ملنے والی تھی اس نے تو اس محبت کی ہوا خود کو بھی لگنے نہ دی تھی ۔
اسے تو ٹھیک سے یاد بھی نہیں تھا وہ کب اس احساس سے روشناس ہوئی تھی مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا یہ احساس پوری شدت کے ساتھ زور پکڑتا گیا اسے نہیں یاد تھا کب اس کا دل پہلی بار آزر کو دیکھ کے دھڑکا تھا اسے بس اتنا پتا تھا آزر اس کے ہیں اور وہ آزر کی۔۔۔۔۔۔!!!!!
آج اتنے سالوں بعد اسے لگا تھا اس کی محبت کو منزل ملنے والی ہے وہ کچھ دیر پہلے ہی دادو اور تائی امی کی باتیں سن کے آئی تھی وہ لوگ آزر سے منال کے متعلق پوچھنے کا زکر کر رہے تھے اس سے خوشی سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی وہ چاہتی تھی ساری دنیا اس کی خوشی میں شریک ہو اور سب کو چلا چلا کے بتائے دیکھو جسے میں نے چاہا وہ میرا ہو جائے گا۔۔۔۔۔
کوئی ہوگا اس روئے زمین پہ مجھ سے زیادہ خوش قسمت۔۔۔۔۔!!!

وہ بہت حساس تھی چھوٹی عمر میں ہی ماں کا سایہ سر سے چھین گیا تھا کلثوم بیگم شزرا کو جنم دیتے چل بسیں اس وقت منال کہ عمر دو سال تھی مگر اس نے شزرا کو ماں بن کے پالا تھا اس نے تو شزرا کو کبھی ماں کی کمی محسوس نہ ہونے دی مگر خود راتوں کو اٹھ اٹھ کے ضرور روتی تھی  مگر شزرا کی آنکھ میں ایک آنسو اسے برداشت نہ تھا شزرا نے بھی ماں کے روپ میں جسے دیکھا تھا وہ منال ہی تھی۔

مگر جب سے آزر کے ساتھ کا اسے احساس ہوا تھا اس نے خوش رہنا سیکھ لیا تھا اب اس کے ساتھ آزر کا خیال تھا اب وہ نہیں روتی تھی۔

____________________________________________________

اگلے دن صبح سے ہی گھر میں چہل پہل تھی۔آزر کے آنے کی خوشی میں دادو نے سب رشتےداروں کو دعوت دی تھی اب سب لوگ اسی کی تیاریوں میں مصروف تھے۔
تائی امی آزر کے آنے سے بہت خوش تھیں اور کیوں نہ ہوتیں آزر ان کے اکلوتے بیٹے تھے جو ان کی ہر امید پہ پورا اترے تھے۔
تائی امی دادو اور منال تینوں صبح سے ہی کچن میں مصروف تھیں شزرا کچھ دیر پہلے ہی اٹھی تھی اور اب ڈائننگ ٹیبل پہ بیٹھی ناشتہ کرنے میں مصروف تھی اور ساتھ ساتھ دادو سے ڈانٹ کھانے میں بھی مصروف تھی۔
آزر آنکھیں ملتے ہوئے آکے ڈائننگ ٹیبل کے گرد کرسی گھسیٹ کے بیٹھ گئے۔
"امی ناشتہ دے دیں" انہوں نے وہیں سے آواز لگائی۔
"بہو میں کہتی ہوں اس لڑکی کو کچھ گھرداری سکھا دو" دادو نے شزرا کر گھورتے ہوئے تائی امی کو مخاطب کر کے کہا۔
"امی سیکھ جائے گی وقت آنے پہ ابھی بچی ہے" تائی امی نے مسکرا کے کہا شزرا ان سب باتوں سے بے نیاز ناشتہ کرنے میں مصروف تھی۔
آزر دلچسپی سے دادو کی باتیں سننے لگے جبکہ شزرا کچھ بیزار سی بیٹھی تھی اس نے آزر کی طرف نہ دیکھا آزر اس کی پلیٹ سے سیب کی قاشیں اٹھا کے کھانے لگے جس پہ شزرا نے کچھ گھور کے انہیں دیکھا۔
"کل کو دوسرے گھر جائے گی تو ناک کٹوائے گی ہماری" دادو نے مصالحہ بھونتے ہوئے کہا۔
پورے گھر میں کھانے کی اشتہا انگیز خوشبو پھیلی تھی۔
"دادو ایک کام کرتے ہیں….." آزر کے چہرے پہ شرارتی سی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔
" کونسا کام۔۔۔۔۔؟" دادو نے ناک پہ اپنا چشمہ ٹھیک کرتے ہوئے کہا۔
"شزرا کو ہم کہیں جانے نہیں دیتے یہں روک لیتے ہیں" آزر نے اپنی مسکراہٹ دبائے کہا۔
شزرا نے جھٹکے سے سر اٹھا اٹھا کے آزر کی طرف دیکھا اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اس نے گھبرا کے ان تینوں کی طرف دیکھا۔
"ایسا نہیں ہوتا بیٹا لڑکیوں کو جانا ہی پڑتا ہے اپنے گھر" دادو نے رسان سے انہیں سمجھایا آزر نے شزرا کو دیکھ کے آنکھ دبائی دوسری جانب شزرا کے ماتھے پہ ٹھنڈا پسینہ نمودار ہوگیا تھا۔
وہ آزر کو گھورتی ہوئی وہاں سے اٹھ کے اپنے روم میں چلی گئی پیچھے اسے آزر کا قہقہہ سنائی دیا۔
کچھ دیر بعد آزر اٹھ کے شزرا کے روم کی طرف بڑھے۔
ناک کر کے اندر داخل ہوئے تو شزرا کھڑکی کے سامنے کھڑی تھی آزر اس کے سامنے جا کھڑے ہوئے اور سینے پہ ہاتھ باندھے فرصت سے اسے دیکھنے لگے۔
شزرا نے اپنے خیالوں سے چونک کر انہیں دیکھا تو وہ مہویت سے اسے ہی تک رہے تھے۔
شزرا نے ایک آنکھ کی آبرو اٹھا کر انہیں دیکھا آزر نے نفی میں سر ہلا دیا اس نے کوفت سے سر جھٹکا۔
"تم مجھے پاگل کردو گی" آزر اس کے قریب کھڑے اس کے کان میں سرگوشی کر رہے تھے بھوری آنکھوں میں محبت کا دریا آباد تھا شزرا نے کرنٹ کھا کر انہیں دیکھا وہ اسکے بے حد قریب کھڑے تھے  ان کی سانسیں شزرا کے چہرے سے ٹکرا رہی تھیں شزرا نے ان کے سینے پہ ہاتھ رکھ کے انہیں پیچھے دھکیلا اور پلٹ کے جانے لگی آزر نے اس کا بازو پکڑا اور اسے سامنے دیوار سے لگا دیا۔
"اگر مجھ سے محبت نہیں کرتیں تو ابھی بتا دو میں ختم کردوں گا یہ سب مگر مجھ سے تمہارا نظر انداز کرنا نہیں سہا جاتا" آزر نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر درشتی سے کہا پل بھر میں سیاہ نگینوں میں نمی نمودار ہوئی۔
اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کے آزر نے اسے اپنی مضبوط گرفت سے آزاد کیا اور جھنجھلا کے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔
"دیکھو شزرا صاف صاف بتادو جو بھی تمہارے دل میں ہے امی کب سے میرے پیچھے لگی ہیں شادی کے لئے میں انہیں صرف تمہاری وجہ سے ٹال رہا ہوں مجھے کل رات کو لگا تم شادی کے لئے راضی ہو مگر آج پھر وہی تمہاری بیگانگی ۔۔۔۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تم چاہتی کیا ہو" آزر بول بول کے تھک گئے تو بیچارگی سے اس کی طرف دیکھا جو کھڑی زور و شور سے آنسو بہانے میں مصروف تھی۔
"افف رو کیوں رہی ہو؟" آزر نے تنگ آکے پوچھا.
"آپ نے ڈانٹا ہے مجھے" وہ آنسوؤں کے درمیان بولی۔
"یار ڈانٹ نہیں رہا میں پوچھ رہا ہوں" انہوں نے نرمی سے کہا۔
"مجھے آپ سے اب بات ہی نہیں کرنی" اس نے آنسو پونچھتے کہا اور بھاگتے ہوئے روم سے چلی گئی۔
"بہت سر پہ چڑھا دیا اسے سب لوگوں نے" پیچھے آزر صرف بڑبڑا کے رہ گئے۔



اپنی قیمتی رائے کا اظہار ضرور کیجیئے گا۔

شزرا جواب کیوں نہیں دے پارہی؟

یہ سب جاننے کے بعد منال کا ری ایکشن کیا ہوگا؟

No comments:

Post a Comment