#وحشتِ عشق
#بقلم رمشاء مہناز
#قسط نمبر 5
(Don't copy without any permission)
صبح منال اس کے روم میں اسے اٹھانے آئی تو وہ شاید سو رہی تھی منال ایک نظر اسے دیکھ کے چلی گئی اس نے اسے اٹھانا مناسب نہ سمجھا اس نے سوچا شاید کل کی تھکن کی وجہ سے اب تک نہیں اٹھی تو وہ واپس نیچے چلی گئی۔
ہاں شاید تھکن ہی تو تھی محبت کی تھکن،رشتوں کی تھکن اور اپنے آپ سے لڑنے کی تھکن اور اس تھکن میں اس کا وجود چور چور ہو گیا تھا۔
منال نہیں جانتی تھی کل رات اس کا وجود کتنے ٹکڑوں میں بٹ گیا تھا وہ اس کی اذیت سے بے خبر اپنی محبت کی سرشاری میں مگن تھی۔
"منال بیٹا شزرا کو نہیں اٹھایا؟" تائی امی نے منال کو اکیلے واپس آتے دیکھ کے سوال کیا۔
"نہیں تائی امی وہ سو رہی ہے تو میں نے اسے اٹھایا نہیں" منال نے ڈائننگ ٹیبل کے گرد کرسی گھسیٹ کے بیٹھتے ہوئے کہا۔
آزر جو کب سے بیٹھے شزرا کا ہی انتظار کر رہے تھے سر جھٹک کے دوبارہ ناشتہ کرنے لگے۔
انہیں عادت سی ہو گئی تھی شزرا کو دیکھ کے آفس جانے کی مگر شزرا کو وہاں موجود نہ دیکھ کے انہیں عجیب خالی پن سا لگا وہ بوجھل دل سے ناشتہ کر کے آفس چلے گئے۔
____________________________________________________
دوپہر ہو گئی تھی مگر شزرا اب تک نہیں اٹھی تھی منال اس کے روم میں گئی اور لائٹ آن کی سامنے ہی بیڈ پہ شزرا بے سدھ سو رہی تھی منال نے اس کے قریب جا کے اسے آوازیں دیں مگر اس پہ کوئی اثر نہ ہوا منال نے اس کا ہاتھ ہلایا تو اسکا ہاتھ جلتا ہوا سا محسوس ہوا اس نے گھبرا کے اس کے ماتھے پہ ہاتھ رکھا تو اس کا ماتھا بخار کی شدت سے دہک رہا تھا۔
منال نے گھبرا کے دادو اور تائی امی کو آوازیں دیں وہ دونوں فورا شزرا کے روم کی طرف گئیں۔
"کیا ہوا بیٹا؟" دادو نے منال کے پریشان چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"وہ دادو دیکھیں شزرا کو کیا ہوا ہے اٹھ نہیں رہی" منال نے شزرا کے ماتھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بوکھلائے لہجے میں کہا۔
"اسے تو بہت تیز بخار ہے" تائی امی بھی پریشان ہو گئیں۔
"میں بابا کو فون کرتی ہوں" منال نے روتے ہوئے دلاور صاحب کا نمبر ملایا۔
دوسری طرف چند بیلز کے بعد کال پک کر لی گئی۔
"السلام وعلیکم۔۔۔ بیٹا سب خیریت ہے" دلاور صاحب نے فون کان سے لگاتے ہوئے پوچھا۔
"وہ بابا پتا نہیں شزرا کو کیا ہوا ہے آپ پلیز جلدی گھر آئیں" منال نے روتے ہوئے انہیں بتایا۔
"میں آرہا ہوں بیٹا آپ رو نہیں" وہ فوراً اپنی جگہ سے جانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔
""کیا ہوا دلاور گھر میں سب ٹھیک ہے؟" امین صاحب نے اپنے چھوٹے بھائی کے پریشان چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"وہ بھائی شزرا کی طبیعت خراب ہے منال بہت رو رہی ہے۔
"چلو پھر جلدی" شزرا کی طبیعت کا سن کے امین صاحب بھی پریشان ہوگئے اور دونوں گھر جانے کے لئے آفس سے نکل گئے۔
آزر اس وقت آفس میں موجود نہیں تھے وہ سائٹ پہ تھے۔
وہ دونوں گھر پہنچے تو ڈاکٹر کو کال کردی گئی کچھ دیر میں ڈاکٹر صاحب بھی آگئے وہ شزرا کا چیک اپ کرنے لگے اور کچھ انجیکشن دیئے۔
"ڈاکٹر صاحب کیا ہوا ہے میری بیٹی کو؟" دلاور صاحب نے پریشانی سے پوچھا۔
"پریشانی اور آسٹریس کی وجہ بیہوش ہو گئیں ہیں خیر اب گھبرانے والی کوئی بات نہیں ہے کچھ دیر میں ہوش آجائے گا" ڈاکٹر نے دوائیوں کا نسخہ لکھتے ہوئے کہا۔
امین صاحب ڈاکٹر کو چھوڑنے باہر تک گئے۔
دلاور صاحب شزرا کے برابر میں بیٹھ گئے اور ایک نظر اس کے سوئے ہوئے چہرے پہ ڈالی۔
انہیں اپنی دونوں بیٹیاں اپنی جان سے زیادہ عزیز تھیں اگر دونوں میں سے ایک کو بھی کچھ ہوتا ان کی جان پہ بن جاتی انہوں نے دونوں کو ماں باپ بن کہ پالا تھا۔
آج کسی پریشانی کی وجہ سے شزرا کی یہ حالت ہوئی تو وہ کیوں بے خبر رہی وہ خود کو بیٹھے ملامت کر رہے تھے۔
"بابا آپ آرام کرلیں کچھ دیر میں ہوں شزرا کے پاس" منال کے ان کے تھکے تھکے سے چہرے کی طرف دیکھ کے کہا۔
"نہیں آپ جاؤ جا کہ آرام کرو صبح سے ہی پریشان پھر رہی ہو میں ہوں یہاں اپنی گڑیا کے پاس" دلاور صاحب نے محبت پاش لہجے میں کہا۔
" میں کچھ بنا دیتی ہوں شزرا کے لئے جب تک یہ اٹھتی ہے" منال نے شزرا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے کہا اور کچن کی طرف چلی گئی۔
شام تک شزرا کو ہوش آگیا دلاور صاحب اس کے ساتھ ہی بیٹھے تھے شزرا نے نظر گھما کر اپنے برابر میں بیٹھے شفیق باپ کو دیکھا جو دنیا کی ہر خوشی اسے کے سامنے ڈھیر کردینا چاہتے تھے پھر سامنے صوفے پہ بیٹھی منال کی طرف دیکھا جو اس سے اس کی واحد خوشی بھی لینے کے درپے تھی۔
اسے اپنا سر گھومتا محسوس ہوا نقاہت سے اس سے اٹھا بھی نہیں جا رہا تھا اسے ہلتا دیکھ کے منال فورا اس کے قریب آئی دلاور صاحب بھی اس کی طرف متوجہ ہو گئے منال نے اسے سہارا دے کہ بٹھایا۔
"کیسی طبیعت ہے اب میری بیٹی کی؟" بابا نے اسے پیار سے پوچھا لمحے بھر میں اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھیں مگر وہ رونا نہیں چاہتی تھی اس نے پلکیں جھپک کہ آنسو اپنے اندر انڈیلنے کی ناکام کوشش کی۔
""میں ٹھیک ہوں بابا" اس نے آہستگی سے کہا۔
"جاؤ منال شزرا کے لئے کچھ کھانے کے لئے لے آؤ" دلاور صاحب نے شزرا کے سر پہ ہاتھ پھیرتے کہا منال فورا شزرا کے لئے کچھ کھانے کے لئے لینے چلی گئی۔
وہ واپس لوٹی تو اس کے ہاتھ میں سوپ کا باؤل تھا منال اس کے سامنے بیٹھ گئی اور ایک چمچ بھر کے اس کی طرف بڑھایا۔
شزرا کی نگاہوں کے سامنے ایک بار پھر رات کا سارا منظر دوڑ گیا وہ ڈائری،وہ اظہار محبت،آزر کا نام سب کچھ۔۔۔۔۔۔۔!!!!
اس کے دماغ پہ جیسے ہتھوڑے سے پڑنے لگے۔
آنکھوں میں مرچیں بھر گئیں ہر منظر دھندلا دھندلا سا لگنے لگا۔
"شزرا منہ کھولو بیٹا" دلاور صاحب نے اسے مخاطب کیا اس نے چونک کے سامنے بیٹھی منال کی طرف دیکھا جو چہرے پہ دنیا جہاں کی محبت لئے اسی کی منتظر تھی شزرا کا دماغ ماؤف ہونے لگا۔
"مجھے نہیں کھانا یہ" شزرا نے منہ پھیر لیا۔
"تھوڑا سا کھا لو بس" منال نے محبت سے ایک بار پھر اسے کھلانے کی کوشش کی۔
"میں نے کہہ دیا کہ نہیں کھانا تو آپ کیوں میرے پیچھے پڑ گئیں ہیں" شزرا نے بیزاری سے منال سے کہاں اور واپس لیٹ گئی۔منال پل بھر کو ساکت ہوئی تھی شزرا نے ایسے اس سے کبھی بات نہیں کی تھی پھر آج کیوں۔۔۔۔۔!!!
"کوئی بات نہیں بیٹا ابھی نہیں کھانا تو تھوڑی دیر میں کھا لینا" دلاور صاحب نے شزرا کو پچکارتے ہوئے کہا۔
"منال یہ یہں رکھ دو بیٹا"دلاور صاحب نے منال کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جس کی آنکھوں میں آنسو بھرے تھے۔
"جی" منال نے یک لفظی جواب دیا اور باؤل رکھ کے روم سے نکل گئی۔
"شزرا کیا ہوا بیٹا آپی سے ایسے کوئی بات کرتا ہے کیا" منال کے جانے کے بعد دلاور صاحب نے شزرا کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے پیار سے پوچھا شزرا نے اپنی سرخ آنکھیں کھول کے انہیں دیکھا مگر کچھ نہ بولی۔
"ابھی طبیعت ٹھیک ہو جائے تو آپی سے سوری بول دینا ٹھیک ہے" وہ محبت سے اسے سمجھا رہے تھے شزرا نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
کچھ دیر بعد وہ دوبارہ سو چکی تھی دلاور صاحب خاموشی سے اس کے پاس سے اٹھ کہ منال کے روم کی طرف گئے وہ جانتے تھے منال کا دل بہت نازک سا ہے زرا سی ٹھیس سے بھی ٹوٹ جاتا ہے۔
وہ اندر داخل ہوئے تو منال بیڈ پہ خاموشی سے سر جھکائے بیٹھی تھی۔
"بیٹا آپ جانتی ہو نہ شزرا کی طبیعت خراب ہے اس لیے اس نے تھوڑا مس بیہو کردیا اب طبیعت ٹھیک ہو جائے گی تو دیکھنا فوراً تمہارے پاس بھاگی چلی آئے گی" وہ اسے نہایت شفقت سے سمجھا رہے تھے۔
"جانتی ہوں میں بابا اور مجھے برا نہیں لگا وہ میری گڑیا ہے میں کیوں اس کی بات کا برا مانوں گی۔۔۔۔میں اس لئے رو رہی ہوں اس کی طبیعت زیادہ خراب ہے ورنہ وہ ایسے کبھی نہیں کرتی" منال نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
"انشاء اللہ ٹھیک ہو جائے گی.ابھی وہ سو رہی ہے کچھ دیر میں اٹھے گی تو میڈیسن دے دینا" انہوں نے منال کے سر پہ ہاتھ رکھتے کہا۔
____________________________________________________
شام میں آزر گھر لوٹے تو تائی امی انہیں لاونج میں ہی دیکھ گئیں۔
"اتنا سناٹا کیوں ہے گھر میں؟" انہوں نے ادھر اُدھر دیکھتے پوچھا ورنہ وہ ہمیشہ گھر آتے تھے تو شزرا انہیں سامنے ہی دیکھ جاتی یا کسی کونے سے شزرا کی ہنسی کی آواز آرہی ہوتی تو کبھی شزرا دادو سے ضد کرتی ہوئی دیکھائی دیتی مگر آج ہر طرف سناٹا چھایا تھا۔
"شزرا کی طبیعت خراب ہے اس لئے سناٹا چھایا ہے" تائی امی نے ان کے ہاتھ میں پانی کا گلاس پکڑاتے ہوئے کہا۔
"کیا ہوا اسے؟" انہوں نے پریشانی سے پوچھا آج صبح سے ناجانے وہ شزرا کو کتنے ہی فون کے چکے تھے مگر اس سے رابط نہیں کو پایا ان کا دھیان بار بار جا کے شزرا میں ہی اٹک جاتا ان کا دل آج کچھ پریشان سا تھا انہیں اب اس کی وجہ سمجھ آئی۔
"بخار ہو گیا اسے ڈاکٹر نے کہا ہے اسٹریس کی وجہ سے ہوا ہے" تائی امی نے بیٹھتے ہوئے کہا۔
"اسٹریس"وہ صرف اتنا ہی کہہ سکے۔
"ہاں پتا نہیں کیا ہوا ہے بچی کو صحیح ہو تو زرا کچھ پوچھیں" تائی امی نے پریشان سے لہجے میں کہا۔
"تم آجاؤ چینج کرلو پھر کھانا لگا دیتی ہوں" انہوں نے آزر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
آزر وہاں سے اٹھ کے شزرا کے روم کی طرف گئے انہوں نے ناب گھمائی تو دروازہ بناء آواز کھلتا چلا گیا وہ اندر داخل ہوئے تو ان کی نظر شزرا کے سوئے ہوئے وجود پہ پڑی وہ اس کی طرف بڑھے اور اس کے ماتھے پہ ہاتھ رکھا اس کا ماتھا اب بھی دہک رہا تھا آزر نے اس کے چہرے پہ آئی لٹوں کو نرمی سے پیچھے کیا اس کے چہرے پہ آنسوؤں کے مٹے مٹے سے نشان تھے۔
آزر کا لمس پا کے اس نے اپنی آنکھیں دھیرے سے کھول دیں سامنے ہی آزر چہرے پہ پریشانی لئے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔
"طبیعت کیسی ہے؟" آزر نے اس کا ہاتھ نرمی سے تھامتے ہوئے پوچھا۔
جانے کب سے رکے آنسو شزرا کی آنکھوں سے بہنے لگے۔
"کیا ہوا کیوں رو رہی ہو" آزر یک دم اس کے آنسو دیکھ کے پریشان ہو گئے اسے سہارا دے کہ بٹھایا اور خود اسکے برابر میں آکے بیٹھ گئے۔وہ زار و قطار رو رہی تھی آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
وہ آزر کے سینے سے لگ کے پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔
"نہیں رو پلیز۔۔۔کیا ہوا ہے؟" آزر نے نرمی سے اس کے بال سہلاتے ہوئے پوچھا ان کے خوبرو چہرے پہ تفکر ابھرا۔
"آپ کہاں تھے صبح سے؟" شزرا نے آنسوؤں کے درمیان پوچھا آواز بھیگی ہوئی تھی۔
"میں سائٹ پہ تھا ابھی گھر آیا تو پتا چلا" آزر نے اسے اپنے بازوؤں میں سماتے نرمی سے کہا۔
"میں اب آگیا ہوں نہ آنسو صاف کرو اپنے" آزر نے ایک ہاتھ سے اس کے بہتے آنسو صاف کئے۔
"آپ وعدہ کریں مجھے کبھی چھوڑ کے نہیں جائیں گے" شزرا کا دل کسی انہونی سے ڈر رہا تھا وہ خود کو یقین دلا دینا چاہتی تھی۔
"میں نہیں جاؤں گا کبھی اپنی شزرا کو چھوڑ کہ" آزر نے اس کی پلکوں پہ اٹکے موتی اپنی پوروں پہ چنتے ہوئے کہا۔
کچھ دیر بعد وہ زرا سنبھلی تو سیدھی ہو کہ بیٹھ گئی مگر آنسو اب بھی رواں تھے۔
جب دل کے کورے کاغذ پہ کسی کے نام کی تحریر ابھرنے لگی تھی تو کیسے وہ اس کو مٹا دیتی۔
اب اس راہ کیسے قدم موڑ لیتی۔
"شزرا تم ایسے رو گی تو میں پریشان ہو رہا ہوں" آزر نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے ہوئے محبت سے کہا۔
"میں نہیں رو رہی" اس نے اپنے آنسو ہتھیلی کی پشت سے رگڑتے ہوئے کہا۔
"کیا ٹینشن لی ہے تم نے جو اتنا تیز بخار ہو گیا؟" آزر نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے سوال کیا آنکھیں رونے کے باعث سرخ ہو رہی تھیں اس لمحے وہ آزر کو اپنے دل کے بہت قریب لگی۔
"کچھ نہیں۔۔۔میں ٹھیک ہوں" اس نے سر جھکائے آہستگی سے کہا۔
"شزرا کوئی بھی بات ہو تم مجھ سے شیئر کر سکتی ہو" آزر اسے اپنے ساتھ کا یقین دلانا چاہتے تھے۔
"نہیں کوئی بات نہیں ہے۔۔۔بس سر میں تھوڑا درد ہے" اس نے بیڈ کراؤن سے سر ٹکا کر آنکھیں موندے ہوئے کہا۔
"میں منال کو کہتا ہوں کچھ تمہارے لئے کچھ کھانے کو لے آئے" آزر بول کر اس کے پاس سے اٹھنے لگے آزر کے منہ سے منال کا نام سن کر اس کے دل میں ایک کانٹا سا چبھا۔
"نہیں مجھے کچھ نہیں کھانا" اس نے آزر کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
"آپ میرے پاس بیٹھ جائیں پلیز" آزر نے اچھنبے سے اس کی طرف دیکھا آج وہ منال کو چھوڑ کر کسی اور کی طرف متوجہ تھی ورنہ پہلے بھی اس کی طبیعت خراب ہوتی تھی تو اسے صرف منال کی ضرورت ہوتی تھی مگر آج وہ آزر کا ساتھ مانگ رہی تھی
اس کی حالت کے پیش نظر آزر واپس بیٹھ گئے۔
کچھ ہی دیر بعد منال دوباہ اس کے لئے سوپ لے آئی شزرا نے اسے دیکھ کے نگاہیں پھیر لیں۔
"شزرا اٹھو بیٹا کچھ کھاو پھر میڈیسن لینی ہیں" منال نے اسے مخاطب کیا مگر وہ خاموش بیٹھی رہی۔
"منال تم جاؤ میں کھلا دیتا ہوں" آزر نے منال کے ہاتھ سے سوپ کا باؤل لیا اور اسے کھلانے لگے اس بار شزرا نے کوئی ضد نہ کی بلکہ خاموشی سے کھالیا۔
پھر اسے میڈیسن دے کہ آزر نے اسے واپس لٹا کہ اس پہ بلینکٹ اوڑھا دیا کچھ دیر بعد دوائیوں کے زیر اثر ایک بار پھر وہ نیند کی وادی میں چلی گئی۔
آزر نے اس کے روئے روئے سے چہرے کی طرف دیکھا پتہ نہیں کیوں یہ لڑکی انہیں اپنی جان سے بڑھ کے معلوم ہونے لگی اس کی یہ حالت دیکھ کے وہ خود پریشان ہو گئے تھے۔
No comments:
Post a Comment