میرا رہنما
از قلم شیرہ خان
ایک عرصہ بعد جب اس سر زمین پر جہاں بچپن کا حسین دور گزراتھا۔
قدم رکھ کر ایسا لگا جیسے وہ ماضی پھر سے واپس آگیا ہوجس کی ڈور ہمارے ہاتھوں سے وقت نےبڑھوتری کا چکمہ دے کردھیرے دھیرے چھیں لی تھی...
مگر سب کچھ ہی تو بدل گیا تھا...
وہ جگہ وہاں کا رہن سہن سب سے بڑھ کر کےدقیانوسی کی غفلت بھری نیند سے لوگ بیدار ہوچکے تھے...
ہر چیز کا نقشہ یوں مانو کہ یکسر ہی بدل گیا تھا۔
جیسے کسی طلسمی دنیا سے کسی پرنے آکر یہاں اپنی جادوی چھڑی چلائی ہو۔۔۔۔
مگر پھر بھی ایسا گمان ہورہا تھا کہ کچھ تو ہے جو ویسا ہی جیسا پہلے تھا مگر کون؟؟؟؟اس بات کا ابھی اندازہ لگانا بڑا مشکل تھا۔۔۔
گزرے وقت کی ہر حسین یاد آنکھوں کے پردے پر فلم کی طرح چلنے لگی ....
بڑھتے قدموں کے ساتھ ہر وہ خوشی ,غم ,ساتھی سنگیوں کے ساتھ بیتایا وقت ہر چیز ہی تو یاد آئی تھی جو آنکھوں میں نمی کا باعث بنی تھی۔۔
قدم پتہ نہیں کیوں اس ایک جگہ کی طرف اپنے آپ بڑھتے چلےجارہے تھے ۔۔۔
ایک عجیب سی ان دیکھی قوت تھی جو اپنی طرف کھینچ رہی تھی...
شاید کوئی تھا لاشعور میں..دل میں...خیالوں میں.. جس کےلیے دماغ کو حکم دینے کی ضرورت ہی نہ پڑی تھی....
پاؤں خود چل پڑے اس جانب۔۔۔
ہاں یہ وہ جگہ تھی جو میرا اصل تھی ...میری بنیاد ... میری جڑیں جڑی اس مقام سے..
جہاں سےبہت کچھ حاصل کیا تھا..
بہت کچھ نہیں سب کچھ ہی تو یہی سے لیا تھا....
اس ایک جگہ سے ،اس ایک شخص سے
بے غرض وبے لوث محبت پائی تھی ” اس پانی کی صراحی کی طرح جو جھکتی خود ہے مگر سیراب سامنے والے کو کرتی ہے“
ایسا کرکے انھوں نے کیا پایا؟؟یہ ایک سوال ہے جو مجھے ہمیشہ بےکل کردیتا ہے.....
اس ایک سوال کا جواب میں آج تک نہیں جان پایا آخر ایسے کیسےکرلیا انھوں نےیہ صرف میرے لیے نہیں میرے جیسے نجانے کتنوں کے لیے....
وہ اب بھی وہیں تھے اسی جگہ ویسے ہی روشنی کو باٹتے ہوۓ..... شفیق مسکراہٹ کے ساتھ یہ وہ چہرہ تھا جو چاہ کر بھی میری نگاہوں سے کبھی اوجھل نہ ہوا....
جب بھی انکا ذکر ہوتا میرا سر فخر سے بلند ہوجاتا اور میں پوری مسرت کے ساتھ کہتا ہاں یہ وہ شخص ہے جس کی بدولت میں آج اس مقام پر ہوں ..... جس نے میری صلاحیتوں کو پہچانا تھا...ہاں میں اس
” معزز معلم“ کا ایک ادنی سا طالب علم ہوں...
زمانے کی ہر چیز گردش میں آئی مگر وہ شخص آج بھی زمانے کے گردوپیش سے دور تھا....”وہ تو اس موم بتی کی مانند تھے جو خودکا وجود ختم کرتی ہہ تاکہ سامنے موجود اندھیرہ نیست ونابود ہوجاۓ“
”ان ہاتھوں کی طرح جو صرف دینا جانتے ہیں لینا نہیں“
”اس سیڑھی کی جس سے چڑھ کر سب زندگی کی دوڑ میں آگے نکل جاتے ہیں مگر وہ پیچھے وہی رہ جاتی ہے دوسروں کا سہارا بننے کےلیے“
وہ ایک سوال جسکی الجھن مجھے ان ہی راستوں پر دوبارہ لے آئی تھی...بڑھتے قدموں کے ساتھ میں بلاآخر انکے سامنے پہنچ ہی گیا مگر قدموں میں ایکدم ہی لغزش آگئ اور کپکپاہٹ سے ہاتھوں میں موجود سامان زمین بوس ہوا....کھٹکے کی آواز پر وہ میری اور پلٹے انکی آنکھوں میں میرے لیے ہلکی سی شناسائی کی جھلک نظر آئی اور میں فورا سے پیشتر انکے گلے لگ گیا جیسے ایک گمشدہ بچہ اپنی ماں کے لگتا ہے انھوں نے بھی تو مجھے اپنی آغوش میں سمویا تھا..تھپکی دینے کے سے انداز میں میری پیٹھ تھپتھپائی.....ایک اشکوں کی نیر آنکھوں سے بہنے لگی جو انھوں نے نہایت نرمی سے اپنی انگلیوں کی پوروں سے صاف کی تھی....اب وہ خوشی سے بھرپور چہرہ لیے مجھے تک رہے تھے جیسے میں نے کوئی بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہو ......یاس سے پہلے وہ کچھ کہتے یکایک ایک شور سا بلند ہوا اور پل میں انکا چہرہ تاریک ہوا تھا کچھ بہت ہی بدتمیز آوازیں سماعتوں سے ٹکرانے لگی وہ اس ہی شور کے جانب بھاگے تھے میں بھی انکے ساتھ ہولیا... کچھ غنڈہ صفت لوگ مدرسہ کی عمارت پر غاصبانہ قبضہ کی فراق میں تھے ...یہ تماشہ چند روز سے معمول کی بات ہوگئی تھی وہ لوگ ان اساتذہ اور میرے رہنما کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آرہے تھے.....میری غیور طبیعت، عہدہ کے تئیں ایمانداری اور میرے دل میں موجود محبت نے ایک دم جوش مارا تھا....میں نے ایک زودار تھپڑ اسے رسید کیا ان تمام کے خلاف ایف آئی آر کٹواکر انکو حوالات روانہ کیا جو میری ڈیوٹی کا اولین فرض ومقصد تھا.....
وہ میرے قریب آۓ اور کہنے لگے”عرصہ دراز سے جس سوال کے جواب کی تلاش میں ہو اسکا جواب تمہارا آج کا عمل ہے“ میرے آنکھوں میں حیرت درآئی کچھ پلے نہ پڑا وہ پھر کہنے لگے” اگر ہم یہ عمل کسی غرض کے مکمل کرنے کے لی کرتے تو آج تمھارے جیسے ہاتھ معاشرے کی مدد کےلیے تیار نہ کر پاتے“انکے یہ چند سادہ سے الفاظ میری پہیلی کا عقدہ حل کرگۓ تھے....
عظیم ہوتی ہیں یہ معلم کی شخصیت جو صرف معاشرہ کے معماروں کو تیار کرنے کے لیےاپنی تمام صلاحیتں ، زندگی کا حسین وقت صرف کردیتے ہیں صرف اور صرف اس لیے ک ے قوم ترقی کر جاۓ۔اور یہ جوبے حس لوگ کہتے ہیں کہ انھیں اس کا معاوضہ بھی تو ملتا ہے یہ انکی کم ظرفی ہے کیونکہ جہو یہ لوگ دیتے ہیں ا س کا مقابلہ زر و بیسہ کر ہی نہیں سکتا اسکا نعم البدل تو کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔
سلام ہے ایسی ہستیوں کو!!!!
No comments:
Post a Comment