”" گوات نہ زانت کہ اے میر چاکر ایں " “
زرک میر
سردار اپنے قافلے کے ساتھ قلات سے گزر رہاہے ۔ پہلی گاڑی میں سردار خود ٹکری‘ میر بیٹھے ہوئے ہیں جبکہ ماماخیرو بطور باڈی گارڈ موجود تھا۔قلات میں برف پڑی ہے ۔شدید سردی ہے ۔ سڑک پردوٹائروں کی جگہ کے علاﺅہ پوری وادی سفید ہی سفید نظر آرہی تھی ۔ہربوئی کی چوٹی برف کا گلیشیئر معلوم ہورہاتھا۔ اندازہ ہورہاتھا کہ باہر غضب کی سردی پڑ رہی ہے ۔ کچھ لوگ سڑک کے کنارے نظرآتے تو گرم ملبوسات میں ایسے لپٹے دکھائی دے رہے تھے کہ انسان نہ ہوں بلکہ کپڑوں کی گھٹڑی ہوں،جنہیں ہوا تیزی سے گول گول اپنے ساتھ گھما کرلے جارہی ہو،نہ چہرہ نظرآتا تھا نہ ہاتھ ۔ میری کی شکستہ قلعے کی چوٹی اونٹ کے کوہان کی طرح نظرآرہی تھی ۔ قلعے کی چھوٹی ڈھلوان ہونے کے باوجود پوری طرح برف سے ڈھکی ہوئی تھی۔کچھ کچھ حصوں سے برف نیچے کی طرف پھسل گئی تھی، قلعے کے ساتھ ہی شہر کو گھیرے سیب کے درختوں پر برف کے ٹکڑے ایسے چھپکے نظرآرہے تھے جیسا کہ ان بغیر پتوں کے درختوں پرسفید خوبصورت تتلیوں نے ڈھیرا ڈالاہو ۔شہر کی درمیانی ندی بھی برف کی چادر اوڑھی ہوئی تھی ۔ندی کے کنارے بنے راستے سے ایک شخص سائیکل پرجارہا تھا جس کے پاﺅں سائیکل کے پیڈل پر خرامہ خرامہ ایسے گھوم رہے تھے جیسا کہ کسی مشین کو سلو موشن پر رکھا گیا ہو۔ کچھ لوگ سڑک کے کنارے کھڑے تھے جن کے منہ سے بھاپ ایسے نکل رہاتھا جیسا کہ اندر کوئی بھٹی چل رہی ہو۔گھروں سے کوئلہ اور لکڑی کے اسٹوب کا دھواں بھاپ کی طرح نکل کر فضاءمیں بکھر رہاتھا۔ایسا لگ رہاتھا کہ سارا شہر گھروں میں دبک کر بیٹھ گیا ہے‘ بند کمروں میں اسٹوب پر بیٹھ کر مجلس جمائے ہوئے ہیں‘کہیں سیاست پر بات ہورہی ہے تو کہیں چکور کی بہادری کے قصے سنائے جارہے ہیں تو کہیں قہواہ چائے پرشعر وشاعری ہورہی ہے ۔ ہندو اپنی دکانوں میں مفلروں سے لپٹے چہروں کیساتھ گاہکوں کا انتظار کررہے ہیں۔ کچھ لوگ سڑک کے کنارے دکانوں پر بیٹھے ٹین کے اسٹوب جلا کر آگ تاپ رہے تھے جہاں سے دھواں اٹھ رہاتھا۔ہربوئی اور قلات کے جنگلات اب تک انہی برف کی جمی زندگی میں حرارت پیدا کرنے میں ہی جھونکے گئے ہیں۔صنوبر،خط ، اور گن کے نایاب درختوں کو کاٹ کرایندھن کا انتظام کیاگیا۔جو کچھ نہیں کرسکتے وہ پہاڑوں سے انہی درختوں کو کاٹ کراونٹوں پرلاد کرشہر میں بیچتے ہیں ۔لوگوں کو ایندھن کیلئے لکڑیاں پہنچا کر یہ لوگ پیٹ کے دوزخ کی آگ ٹھنڈا کرنے کا بندوبست کرتے ہیں ۔ یوں زندگی کے عجب ٹھندے اور گرم مزاجوں کا توازن برقرارکھاجاتا ہے ۔
موسم کے تیور ایسے لگ رہے تھے کہ رات کومزید برف پڑے گی کیونکہ بادل بدستو رچھائے ہوئے تھے اور سورج کے سامنے ایسے مزاحم تھے کہ کوشش کے باوجودسورج اپنی کرنیں بکھیرے میں ناکام نظرآرہاتھا ۔
”ددران کراس“ پر سردار نے سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا
ددران بھی برف سے ڈھکا ہے،لیکن پہلے قلات میں برف بہت زیادہ.پڑتی تھی اب کم پڑ ر ہی ہے ۔بڑے سردار(سردار کے والد ) کہا کرتے تھے کہ ہمارے وقت میں تو اتنی برف پڑتی تھی کہ اونٹ بھی چلنے سے شل ہوجاتے ۔ابھی تو بس زمین ڈھک جائے تو بڑی بات ہوتی ہے۔سردار نے سگریٹ کا کیش لیتے ہوئے اپنی بات مکمل کی ۔
بالکل ۔ٹکری اور میر نے بھی اثبات میں سرہلایا
پچھلی سیٹ پر بیٹھے باڈی گارڈ ماما خیرو کو کیا سوجھی کہ اس نے بھی کچھ کہنا چاہا ۔
منہ کوپٹو سے صاف کرتے ہوئے کہا
جی خواجہ( سردار صاحب ) میرے والد ایک دفعہ شدید برف باری میں محمد تاوا سے قلات شہر کے لئے اونٹ پر نکلے تھے۔ اونٹ پرلکڑیاں لادی تھیں جنہیں شہر بیچنے کے لئے لے جارہاتھا۔ میرا والے بھی اونٹ پر بیٹھے تھے، جس پراسے شدید سردی لگ رہی تھی۔ کسی نے دیکھ کر کہا کہ خدو اونٹ کے اوپر بیٹھو گے تو قلات تک جم جاﺅ گے ۔اونٹ سے اتر کرچلو تو کچھ جسم میں حرارت پیدا ہوگی تب اگے چل سکو گے۔
میرا باپ اونٹ سے اتر گیااور قلات شہر تک پیدل چلتا گیا ۔شہر پہنچ کر اس کی ایسی حالت ہوگئی تھی کہ دستار بوٹوں اور دراڑھی ومونچھوں میں بھی برف جم گئی تھی ۔کوئی اسے پہچان بھی نہ پارہا تھا۔
سرداریہ سن کر ہنس پڑا اور کہا
خدو تو اس وقت برف کا گولہ لگ رہاہوگا ‘بلکہ بھوت جیسا لگ ریا ہوگا ۔لوگ تو بھاگ گئے ہونگے اسے دیکھ کر۔
سردار کے اس طنز پر گاڑی میں بیٹھے ٹکری اور میر کھلھلا کر ہنس پڑے ۔
ماماخیرو نے جوابا کہا
خواجہ (سردار)میرے والد نے کہاکہ اس وقت گھر میں کھانے کو کچھ نہیں تھا ۔اس لئے برف کی سختی مجھے سوجی نہیں ۔میں تو بس جلدی قلات پہنچ کر لکڑیوں کو بیچ کر کچھ کھانے کو لانا چاہتاتھا اس لئے شاہد برف بھی میرا راستہ نہیں روک سکی ۔پہاڑوں میں زندگی بڑی مشکل سے کٹتی ہے جناب ۔ماماخیرو نے اپنے جیسے لوگوں کی دفاع میں فلسفہ جھاڑ دیا۔
سردار نے خیرو پر مزید طنزیہ جملے کسے
یہ سنتے ہی سب ماما خیروپر یوں ہنسے کہ ان کے پیٹ میں بل پڑ گئے ۔
سردارٹکری اور میر کے اس مذاق پر ماماخیرو نے پٹو سے اپنے منہ کا جھاگ صاف کیا اور خاموش ہوگیالیکن اس خاموشی سے اس کا چہرہ سرخ ہوگیا صاف لگ رہاتھا کہ سردار کی بات سے ماماخیرو کو شدید کوفت ہوئی تھی ۔پھر مذاق بھی ماماخیرو کے باپ پرکیاگیاتھا جس سے ماماخیرو کے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی ۔تاہم وہ چھپ رہا ۔چھپ رہنے کے علاﺅ اور وہ کر بھی کیاسکتا تھا ۔
اب گاڑی قلات سے نکل چکی تھی۔ ”الے کنے کاوا قلات ء جی“ اخترچنال کا گا نا ہلکی آواز کیساتھ چل رہاتھا۔ منگچر کے قریب سردار نے گاڑی کو روکنے کا اشارہ کیا اورگاڑی سے اترنے لگا۔ماماخیرو بھی اتر گیا۔سردارنے جونہی گاڑی کا دروازہ کھولا تو تیز ہوا گاڑی کے اندر ایسے داخل ہوگئی جیسے کوئی تیز رفتار ٹرین سرنگ میں داخل ہوتی ہے، ہوا میں جھومنے والے ہلکے برف کے کچھ ٹکڑے بھی گاڑی کے اندر آگئے۔ سردار گاڑی کا دروازہ بند کرکے سڑک کے نیچے اترنے لگا۔تیز ہوا میں سردار کے کپڑے لہرا رہے تھے ۔سڑک سے نیچے اترتے ہی اس نے ایک دفعہ گاڑی کی طرف دیکھا اور پھر کچھ دور جا کر پیشاب کرنے بیٹھ گیا ۔ سردارکی سمت ہوا کی ہی جانب تھی۔تیز ہوا مست ہوکر برف کے ٹکڑوں کو اٹھا کر ادھر ادھر پھینکتی جارہی تھی،جس سے عجب سا سماں بن گیاتھا۔ سردار سنبھلے بیٹھا تھا کہ ہواﺅں کے ساتھ دفعتا ایک اور ہوا کا تیز جھونکا آن ٹھہراجو دیکھتے ہی دیکھتے زمین پر پھیلی برف کو لپٹی چادر کی مانند اوڑ ے سمندر کی لہر کی طرح سردار کی طرف لانے لگا۔ آننافاننا برف سے لپٹی ہوا کی یہ تیز لہر نے سردار کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور سردار کے منہ پر ہوا کے تھپیڑوں نے ایسے وار کئے کہ سردار کا منہ برف سے ڈھک ساگیا ۔برف کی پوری چادر پھیلے میدان میں سردار سے لپٹ گیا ۔سردار پیٹھ کے بل گرتے گرتے بچا ۔تاﺅ دی ہوئی مونچھیں ایسی سفید ہوگئیں جیسے انہیں دہی میں ڈبودیاگیاہو ‘ بال برف سے ڈھک گئے ۔ پورا چہرہ برف کا گولہ سا بن گیا ۔مشکل سے سنبھل کر آزار بند باندھا اور تیزقدموں اور لرزتے دانتوں کیساتھ آکرگاڑی میں بیٹھ گیا اور ماماخیرو کی طرف غصے سے دیکھتے ہوئے کہا ۔
پٹو دو مجھے ۔سردار کی گرج دار آواز سن کر ٹکری اور میر نے بھی اپنے پٹو سردار کو تھما دیئے ۔
وہ ایک پٹو لے کر اپنا چہرہ اور برف میں ڈبوئی ہوئی مونچھوں کو صاف کرکے انہیں پھر سے تاﺅ دیکھا شروع کیا۔
ٹکری نے کہا
خواجہ(سردارصاحب ) میرے خیال میں باہر بہت سردی تھی اور برف بھی کافی پڑی ہے اور ساتھ ہوا بھی چل رہی تھی
سردار نے قدرے پشیمان لہجے میں اپنی خفت مٹانے کی کوشش کرتے ہوئے کہنے لگا
ہاں مجھے برف اور سردی کا قطعی اندازہ نہیں تھا اور پھر ہوا بھی تیز تھی۔ اس علاقے کی سردی اور برف کا کچھ پتہ نہیں چلتا ۔یہ ہے ہی ایسی جگہ جہاں برف کے سوا کیا برستا ہے ؟سردار نے سارا غصہ علاقے اور اس کے موسم پر اتاردیا۔
ٹکری اور میر جو کچھ دیر پہلے سردار کی بات پرکھلھلا کر ہنس رہے تھے وہ اب خود سردار کی خدو جیسی حالت دیکھ کر سم گئے تھے۔خود سردار بھی وضاحتوں میں لگ گیا تھا۔
ماماخیرو نے تومنہ بند رکھنے میں ہی عافیت جانی ۔سردار کے سامنے کہتا بھی تو کیا ۔سردار” خواجہ “ اور ماماخیرو اس کا غلام (”مے “)
لیکن آج برف نے سردار اور غلام( ”مے“ )دونوں کیساتھ یکساں سلوک کرکے اس بات کی گواہی دی تھی کہ ”" گوات نہ زانت کہ اے میر چاکر ایں " “
No comments:
Post a Comment