Wednesday, 4 September 2019

Wehshat e ishq by Ramsha Mehnaz ||Episode#9


#وحشتِ عشق
#رمشاء مہناز
#قسط نمبر 9
(Don't copy without any permission)
"شزرا تم ابھی تک تیار نہیں ہوئیں آزر آتا ہی ہوگا" تائی امی نے شزرا کو گھر کے حلئے میں پھرتے دیکھ کے ٹوکا۔
"میں نے آزر کو کال کی ہے وہ آفس سے نکل چکا ہے جاؤ جلدی تیار ہو دیکھو منال تیار بھی ہو گئی" انہوں نے سیڑھیاں اترتی منال کی طرف دیکھ کے کہا جو اب ان لوگوں کی طرف آچکی تھی۔
"تائی امی میں کیا کروں گی جا کے" شزرا نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
"شزرا میں اکیلے کیسے پسند کروں گی ڈریس تم بھی چلو ساتھ" منال نے شزرا کی بات سن کے اسے کہا۔
"رہنے دو اگر شزرا نہیں جانا چاہتی تو" آزر نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے ان کی باتیں سن لی تھیں شزرا سر جھکا کے رہ گئی۔
"شزرا تم نہیں جاؤ گی تو میں بھی نہیں جاؤں گی" منال نے ضدی لہجے میں کہا 
"میں آتی ہوں تیار ہو کے" اور آزر کی طرف دیکھے بغیر اپنے روم میں چلی گئی روم میں آتے ہی رکے ہوئے آنسو ایک تواتر سے بہنے لگے۔
وہ خود کو سنبھال کے تیار ہو کے نیچے آئی تو دونوں اسی کا انتظار کر رہے تھے وہ لوگ تائی امی کو خدا حافظ کہہ کر باہر آگئے۔
منال آزر کے برابر میں فرنٹ سیٹ پہ بیٹھی تھی جبکہ شزرا پیچھے بیٹھی تھی اس نے ایک بار بھی آزر کی طرف نہ دیکھا وہ سارے راستے خاموش بیٹھی رہی منال نے اسے مخاطب بھی کیا تو بس ہوں ہاں میں جواب دے کہ خاموش ہوگئی۔
گاڑی مال کی پارکنگ میں رکی تینوں نیچے اتر آئے۔
"تم لوگ چلو میں ایک امپورٹنٹ کال کر کے آتا ہوں" آزر نے منال کو مخاطب کر کے کہا وہ دونوں اندر چلی گئیں آزر شزرا کو دور تک اندر جاتے دیکھتے رہے اسے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا وہ خوش تھی تو وہ کیوں اپنا دل جلا رہے تھے انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور موبائل کان سے لگا لیا۔
کچھ دیر بعد وہ اندر پہنچے تو منال اور شزرا ایک شاپ میں کھڑی ڈریس سلیکٹ کر رہی تھیں آزر بھی ان کے برابر میں جا کھڑے ہوئے بیزاری چہرے پہ واضح تھی۔
" آزر یہ کیسا ہے؟" منال نے ہلکے گلابی رنگ کا ایک ڈریس اٹھا کر آزر کو دیکھایا۔
"ہاں ٹھیک ہے" آزر نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
"میم پلیز یہ آپ ٹرائے کر لیں " سلیز گرل نے منال کو مخاطب کر کے کہا۔
"اوکے" منال اسے جواب دے کہ ڈریس ٹرائے کرنے چلی گئی۔
شزرا وہاں خاموشی سے سر جھکائے کھڑی تھی آزر نے ایک نظر اسے دیکھا اور آگے بڑھ کے ایک ڈریس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سیلز گرل سے وہ ڈریس نکالنے کو کہا۔
سلیز گرل نے وہ ڈریس نکال کے دیکھایا تو اس کی چمک دمک نگاہوں کو خیرہ کرنے والی تھی پیچ کلر کی میکسی پہ سلور کام اپنی چھب دکھلا رہا تھا۔
"اسے پیک کردیں" آزر نے سیلز گرل کو مخاطب کر کے کہا شزرا ان سے بے تعلق سی کھڑی تھی۔
کچھ دیر میں منال بھی آگئی آزر ڈریس کی پیمنٹ کرکے شاپ سے باہر آگئے ان کے پیچھے وہ دونوں بھی آگئیں ڈریس کی میچنگ کی جیولری وغیرہ لے کہ وہ لوگ واپس گھر آگئے شزرا نے جیسے اپنے ہونٹوں کو سی لیا تھا وہ لبوں پہ خاموشی کا فقل لگائے اپنی آنکھوں سے اپنی دنیا لٹتے دیکھ رہی تھی۔
منال خوشی خوشی سب کو اپنا ڈریس دیکھا رہی تھی جبکہ شزرا خاموشی بیٹھی زمین کو گھور رہی تھی اسے لگ رہا تھا وہ کچھ دیر مزید بیٹھی رہی تو اس کا ضبط جواب دے جائے گا وہ وہاں سے اٹھ کے اپنے کمرے میں آگئی اور بیڈ پہ گر کے پھوٹ پھوٹ کے رودی۔
کیسی بدقسمتی تھی اسے تو رونے کے لئے کوئی کندھا بھی میسر نہیں تھا وہ اپنی ہی کندھے پہ سر رکھے رو دی۔
اس نے اٹھ کے کمرے کی مدھم لائٹ بھی بند کی وہ شاید اپنا سامنا بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔
دل تھا کہ پھٹا جا رہا تھا وہ جانتی تھی وہ کس ضبط سے یہ سب دیکھتی رہی تھی اپنے ہاتھوں سے اپنی محبت کسی اور کو سونپ دینا کوئی آسان کام نہیں تھا اس کے احساسات میں ایک آگ سی بھڑک اٹھی تھی جو بجھائے نہ بجھے۔۔۔۔۔۔۔
جانے کتنی دیر وہ اپنی قسمت کا ماتم کرتی رہی تھی اچانک ہی اس کا کمرہ روشن ہوا تھا وہ فورا سیدھی ہو کے بیٹھی اس نے پلٹ کے دروازے کی طرف دیکھا جہاں آزر اطمینان سے ٹیک لگائے کھڑے اسے ہی دیکھ رہے تھے اس نے فورا ہاتھ کی پشت سے اپنے آنسو صاف کئے اور کھڑی ہوگئی۔
آزر اس کی طرف بڑھے وہ ان کی طرف دیکھنے سے گریز کر رہی تھی وہ سر جھکائے بھی آزر کی خود پہ نظریں محسوس کر سکتی تھی اس کے اعصاب پہ بوجھ بڑھ رہا تھا۔
"شزرا۔۔۔۔۔۔" حدت دیتی آواز کہیں پاس سے ابھری تھی اس نے سر اٹھا کے گیلی آنکھوں سے آزر کی طرف دیکھا مگر یہ کیا۔۔۔۔۔۔!!؛
ان کے چہرے پہ بیگانگی کا تاثر واضح تھا۔
"کیوں رو رہی ہو" وہ انجان بنے اس سے پوچھ رہے تھے لہجہ سرد تھا۔
"وہ آنکھ میں کچھ چلا گیا بس اس لئے۔۔۔" شزرا نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔
"روک لو مجھے۔۔۔۔" وہ اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھتے چلے گئے وہ دم بخود ہوئی تھی وہ ایک بار پھر اس کے سامنے اپنا آپ ہار رہے تھے آنسوؤں کا ریلا شاید دونوں کو بہا لے جا رہا تھا۔
وہ پتھر کی مورت بنی کھڑی تھی اور ساکت نگاہوں سے انہیں دیکھ رہی تھی ایک اونچا لمبا مضبوط مرد اس کے سامنے کیسے ریزہ ریزہ بکھر رہا تھا اس کا دل کیا وہ انہیں سمیٹ لے مگر خود پہ ضبط کئے وہ چہرہ موڑ گئی انہوں نے سر اٹھا کے بے یقینی سے اسے دیکھا اگلے ہی پل ان کی آنکھوں میں غصہ عود کر آیا وہ سیدھے ہو کہ کھڑے ہوئے اور اس کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔
"کیوں کر رہی ہو تم میرے ساتھ ایسا" وہ دبے دبے لہجے میں غرائے تھے آنکھیں شدت ضبط سے لہو رنگ ہو گئیں ان کے ہاتھوں کی انگلیاں شزرا کے بازو میں گڑی جا رہی تھی درد کی شدت سے اس کے منہ سے آہ نکلی آنکھوں سے آنسو اور تیزی سے رواں ہو گئے اسے لگ رہا تھا وہ اپنا آپ ان کے سامنے ہار جائے گی اور ان کے سینے سے لگ کے اپنا ہر درد عیاں کردے گی وہ خود کو چھڑوانے کی سعی کرنے لگی مگر مقابل کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی تھی وہ جیسے اپنا سارا غصہ اپنی بے بسی سب کچھ اس پہ اتار دینا چاہتے تھے۔
"جب تک جیئوں گا صرف تم سے نفرت کروں گا آج کے بعد سوائے نفرت کے کوئی اور جذبہ ہمارے درمیان نہیں آئے گا یہ وعدہ ہے تم سے" انہوں نے ایک جھٹکے سے اسے بیڈ پہ پھینکا اور شاپنگ بیگ صوفے پہ ڈال کے کمرے سے نکل گئے اور وہ پیچھے بیڈ پہ اوندھے منہ گری اپنی قسمت کا ماتم کرتی رہی۔
بہت مشکل ہوتا ہے جس کی آنکھوں میں آپ صرف اپنے کئے پیار دیکھتے آئے ہوں اس کی آنکھوں میں اپنے لئے نفرت دیکھنا۔
دل اس کی طرف کھینچا جا رہا ہو مگر خود پہ ضبط کئے اپنا صبر آزمانا۔
دل کسی چیز کے لئے ایڑیاں رگڑ رہا ہو مگر اسے بھلا پھسلا کے کسی اور طرف مائل کرنا۔
اپنی پسندیدہ چیز کسی اور کے ساتھ دیکھنا۔
بہت مشکل ہوتا ہے۔
اسوقت شزرا جس کرب سے گزر رہی تھی اس کا اندازہ صرف وہی لگا سکتی تھی کہ وہ کس دل سے آزر کی محبت کو ٹھکرا رہی تھی صرف منال کی خوشی کے لئے اس سب میں اس نے اپنا سوچا ہی نہیں۔ کہ اس کا کیا ہوگا وہ کیسے رہے گی آزر کے بناء۔۔۔۔۔۔!!!!
اس سے کچھ دوری پہ آزر اپنے کمرے میں بیٹھے سگریٹ پہ سگریٹ پھونک رہے تھے انہوں نے آج تک ان چیزوں کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا مگر اب ان گزرے دنوں میں کثرت سے سگریٹ نوشی کر رہے تھے شاید وہ اپنا غم غلط کرنی کی کوششوں میں مصروف تھے مگر وہ نہیں جانتے تھے یہ عشق کا آسیب ہے جو جان تو لے لیتا ہے مگر جان نہیں چھوڑتا۔
ان کی آنکھیں لہو رنگ تھیں شاید ان میں ٹھکرائے جانے کا غم واضح تھا وہ کیسے اپنی محبت سے دستبردار ہو جاتے مگر اب ان کی انا انہی شزرا کی طرف واپس پلٹنے سے روک رہی تھی شاید اب یہ غصہ نفرت میں بدل رہا تھا ہر گزرتا لمحہ شزرا سے نفرت میں اضافہ کر رہا تھا۔
____________________________________________________
دن یونہی پر لگا کے اڑتے گئے آخر کار منگنی کا دن بھی آن پہنچا صبح سے ہی سب لوگ منگنی کی تیاری میں مصروف تھے۔
شزرا کی آنکھ کھلی تو اسے اپنا سر بھاری محسوس ہوا اسے لگا آج وہ معمول سے زیادہ سوتی رہی ہے اس نے گردن گھما کے گھڑی میں ٹائم دیکھا تو گھڑی دن کے گیارہ بجا رہی تھی وہ مضمحل وجود کے ساتھ اٹھ بیٹھی کھڑکی کے پٹ کھلے تھے اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اس کے چہرے سے ٹکرائے اس نے آسمان کی طرف دیکھا تو کالے بادل آسمان پہ بسیرا کئے سورج کو ڈھانپے ہوئے تھے ماحول میں ایک عجیب سا حبس تھا اس کا دل بھر آیا آج آزر کسی اور کے ہونے جا رہے تھے اور اسے اپنے چہرے پہ مسکراہٹ سجائے سب کے ساتھ موجود ہونا تھا اس سے تو رونے کا حق بھی چھین لیا گیا تھا یا اس نے خود ہی اپنا حق لینے سے انکار کردیا تھا۔
وہ بیڈ سے اٹھ نے اپنے کپڑے نکال کر شاور لینے چلی گئی وہ شاور لے کہ واپس آئی تو اس نے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا جہاں مہندی اپنی بہار دیکھا رہی تھی مہندی کا رنگ اس کے ہاتھوں پہ خوب چڑھا تھا اس کے چہرے پہ ایک تلخ مسکراہٹ ابھر کے معدوم ہوئی۔آئینے کے سامنے کھڑے ہو کے گیلے بالوں کو سلجھا کے اس نے کھلا ہی چھوڑ دیا ہلکے گلابی رنگ کی شارٹ شرٹ اور سفید ٹراؤزر پہنے اور سفید دوپٹہ گلے میں ڈالے اس کا وجود جگمگا رہا تھا وہ نیچے آئی تو سب اپنی اپنی تیاریوں میں مصروف تھے منال کسی بات پہ سر پکڑے بیٹھی تھی جبکہ آزر کہیں جانے کے لئے تیار کھڑے تھے اسے نیچے آتے دیکھ کر منال اس کی طرف لپکی۔
"دیکھو شزرا ٹیلر نے میری شرٹ خراب کردی" منال نے روہانسی آواز میں کہا شزرا نے ایک ایک نظر اس کے ہاتھ میں پکڑی شرٹ کی طرف دیکھا جو اتنی زیادہ خراب نہیں تھی ٹیلر اسے صحیح کر سکتا ہے۔
"آپی اتنی خراب نہیں ہے یہ صحیح ہو جائے گی" شزرا نے اسے تسلی دی۔
"پھر تم جا کے کروا کے کے آؤ دادو مجھے نہیں جانے دے رہیں" منال نے اس کا ہاتھ پکڑ کر التجا کی۔
"ٹھیک ہے میں چلی جاتی ہوں ڈرائیور کے ساتھ" شزرا نے اس کے ہاتھ سے شرٹ لیتے ہوئے کہا۔
"شزرا ڈرائیور کو میں نے سامان لینے بھیجا ہے تم آزر کے ساتھ چلی جاؤ آزر بھی اسی طرف جا رہا ہے" تائی امی نے ان دونوں کی باتیں سن کے کہا آزر کا نام سن کے شزرا کے چہرے کا رنگ فق ہوا تھا اس نے گھبرا کے آزر کی طرف دیکھا جو موبائل کان پہ لگائے کسی سے باتوں میں مصروف تھے۔
"آپی آپ خود چلی جاؤ نہ میں کیسے اسے بتاؤں گی" شزرا نے منماتے ہوئے کہا آزر کا نام سن کے ہی اس کی روح فنا ہونے لگی تھی۔
"لڑکی تمہیں جانے میں کیا مسئلہ ہے آج منال گھر کے باہر نہیں جائے گی تم جا کے کروا کے لاؤ" دادو نے چشمے کے نیچے سے اسے گھورتے ہوئے کہا اب آزر ان لوگوں کی طرف ہی متوجہ تھے۔
"امی میرے پاس اتنا ٹائم نہیں ہے مجھے دیر ہو رہی ہے" آزر نے خشک لہجے میں کہا۔
"آزر پانچ منٹ کا تو کام ہے جاؤ شزرا صحیح کروا کے کے آؤ" تائی امی نے آزر کی بات نظر انداز کر کے شزرا سے کہا شزرا نے کانپتے ہاتھوں سے منال کی شرٹ پکڑ کے شاپر میں ڈال لی آزر بناء کچھ کہے باہر چلے گئے۔
شزرا باہر آئی تو آزر اس کا گاڑی میں ویٹ کر رہے تھے ان کی تیوریوں کے لا تعداد بل دور سے ہی نظر آ سکتے تھے اور اپنا دھڑکتا دل سنبھال کے فرنٹ ڈور کھول کے بیٹھ گئی اس کے بیٹھتے ہی آزر نے ایک جھٹکے سے گاڑی آگے بڑھائی۔دونوں کے بیچ خاموشی حائل تھی ٹھنڈی ہوا کھلے شیشوں سے اندر آرہی تھی شزرا کے لمبے بال اڑ کے آزر کے کندھے سے ٹچ ہو رہے تھے وہ بار بار ہاتھ سے انہیں سنبھال رہی تھی مگر ہوا پہ کس کا زور ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!
آزر کا دھیان بار بار بھٹک کے اس کی کھلی زلفوں میں الجھ جاتا اس کے بالوں سے اٹھنے والی خوشبو ان کے حواسوں پہ چھا رہی تھی انہوں نے اپنی کیفیت سے تنگ آکے ایک جھٹکے سے گاڑی روکی گاڑی کے ٹائر چرچرائے تھے۔

No comments:

Post a Comment