#وحشتِ عشق
#رمشاء مہناز
#قسط نمبر 13
(Don't copy without any permission)
کمرے میں ملگجا سا اندھیرا چھایا تھا مگر اس اندھیرے میں کھڑی شزرا آزر کو بخوبی دیکھائی دے رہی تھی اس کے ایک ہاتھ میں چھری تھی جس سے وہ اپنی کلائی کی نس کاٹنے والی تھی آزر نے فوراً آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے چھری لے کے دور پھینکی اس اچانک افتاد سے شزرا گھبرا گئی وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے آزر کو دیکھ رہی تھی۔
یکدم ہی آزر کا ہاتھ اٹھا اور اس کے گال پہ اپنے نشان چھوڑ گیا وہ سن سی کھڑی رہی اس کے پتھر کے وجود میں جنبش تک نہ ہوئی آزر کو کسی مجسمے کا گمان ہوا۔
"کیا کرنے جا رہی تھیں یہ تم" انہوں نے غصے سے اس کے دونوں بازو پکڑ کر جھنجھوڑے۔
"خودکشی کرنے جا رہی تھیں۔۔۔پہلے ایک کام کرو مجھے مار دو پھر کرتی رہنا اپنی مرضی" ان کا غصہ کسی صورت کم نہیں ہو رہا تھا وہ اس پہ بری طرح برس رہے تھے اور وہ یک ٹک ان کا چہرہ دیکھ رہی تھی اس کی آنکھیں خالی تھیں۔
آزر نے اسے چھوڑا اور اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیر کر خود کو کمپوز کرنے لگے۔
یہ بات سوچ کر ہی دل باہر آنے کو بیتاب تھا کہ اگر وہ تھوڑی سی دیر اور لیٹ ہو جاتے تو پتہ نہیں کیا ہوتا۔
شزرا کو لگا اس کے جسم سے جان ختم ہوتی جا رہی ہے وہ وہیں بیٹھتی چلی گئی۔
شزرا ٹھنڈے فرش پہ گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھی پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔آزر تیزی سے اس کی جانب بڑھے اور اس کے سامنے گھٹنوں نے بل بیٹھ کے اسے دھیرے سے پکارا۔
"شزرا ۔۔۔۔۔۔۔!!" اس نے بے اختیار سر اٹھا کے دیکھا۔
وہ رات بہت سرد سی تھی ہوا ہڈیوں میں گھستی محسوس ہو رہی تھی۔
کھڑکی سے چاند کی روشنی چھن چھن کے اندر آرہی تھی۔شزرا نے سر اٹھا کے دیکھا تو اس کا چہرہ چاندنی کے ہالے میں چمکتا محسوس ہوا آزر پل بھر کو اتنا مکمل حسن دیکھ کے مبہوت ہوئے تھے انہوں نے بے اختیار ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے پہ بکھرے بالوں کو پیچھے کیا۔
کمرے میں مدھم سا اندھیرا پھیلا ہوا تھا مگر شزرا کو یہ مدھم سا اندھیرا بھی بہت گہرا محسوس ہو رہا تھا اسے لگ رہا تھا کہ یہ اندھیرا اس کے رگ و پے میں پیوست ہو چکا ہے۔
"کیوں کیا تم نے یہ سب؟" اس کی سماعتوں سے آزر کی مدھم آواز ٹکرائی۔
"پتا نہیں " اس نے چہرہ دوسری طرف موڑ کے گالوں پہ بہتے آنسو پونچھے۔
"شزرا تم مجھے تکلیف دے رہی ہو" آزر نے اس وقت خود کو بے بسی کی آخری حدوں پہ محسوس کیا۔
"نہیں اب مجھے تکلیف ہونے سے آپ کو درد محسوس نہیں ہوتا" اس نے جیسے ان کو یاد دلایا اس کی صرف آنکھیں ہی نہیں لہجہ بھی بھیگا ہوا تھا۔
"مجھے ہمیشہ لگتا ہے میں تمہارے سامنے ہار جاتا ہوں" آزر نے اس کی یخ بستہ ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا وہ ڈبڈباتی آنکھوں سے انہیں دیکھ رہی تھی وہ چند لمحے اس کے چہرے پہ نظریں جمائے بیٹھے رہے۔
"آپ جانتے ہیں میں آپ کو کبھی ہارتا ہوا نہیں دیکھ سکتی" اس نے ان کی مضمحل چہرے پہ نظریں جمائے قطیعت سے کہا آنسو آنکھوں سے نکل کر گالوں پہ بہہ رہے تھے۔
"تم ہرا چکی ہے ہو۔۔۔۔ایک ایسی ہار جس کے بعد جیت کبھی میرا مقدر نہیں بنے گے" وہ ٹوٹے ہوئے لہجے میں بول رہے اسے اپنا آپ کسی گہری کھائی میں محسوس ہوا۔
"میرے دل میں تو اب جیتنے کی خواہش بھی نہیں رہی" ایک آنسو پلکوں سے ٹوٹ کر شزرا کے ہاتھ کی پشت پہ گرا اس نے بے یقینی کے عالم میں ان کی طرف دیکھا۔
یہ وہ شخص تھا جس نے اسے ٹوٹ کے چاہا تھا اور اس نے کیا کیا ان کے ساتھ۔
اس پل اسے لگا وہ خود کو کبھی معاف نہیں کر پائے گی۔
دونوں کے درمیان ایک طویل چپ نے بسیرا کر لیا۔
"وہ برہان۔۔۔۔۔۔" شزرا نے کچھ کہنا چاہا مگر اس سے پہلے ہی آزر نے اسے خاموش کروادیا۔
"شزرا یہ تمہاری زندگی ہے۔مجھے کوئی حق نہیں ہے میں کوئی فیصلہ کروں میں بھی تو کر رہا ہوں نہ منال سے شادی۔۔۔ تم آزاد ہو اپنے فیصلوں میں" انہوں نے جیسے اپنے دل پہ پتھر رکھ کے یہ سب کہا تھا ان کے جسم میں سوئیاں سی گڑی جا رہی تھیں۔
انہیں لگا اس جملے کے بعد اب وہ ساری زندگی کچھ نہیں بول سکیں گے۔
اور شزرا وہ تو ٹوٹ کے ریزہ ریزہ بکھر رہی تھی۔
ابھی تو اس نے اپنی محبت کا ماتم بھی صحیح سے نہیں منایا تھا اور یکدم ہی یہ کیسی آفت ٹوٹ پڑی تھی۔
وہ آزر کو بتانا چاہتی تھی کہ وہ ان سے کتنی محبت کرتہ ہے مگر اس کے سارے الفاظ اپنی موت آپ مرتے جا رہے تھے۔
اس نے خود ہی تو اس راستے کا انتخاب کیا تھا اور اب اپنے انتخاب پہ پچھتانا کیسا۔
وہ اپنی بات مکمل کر کے اٹھ کے جا چکے تھے مگر وہ ان کے خیال کے ساتھ وہیں بیٹھی رہی۔
تصور میں ان کا چہرہ تکتی رہی۔
ان سے باتیں کرتی رہیں۔
ان کی سنتی رہی۔
____________________________________________________
وہ اس کیفے ٹیریا میں گول میز کے گرد بیٹھی برہان کا انتظار کر رہی تھی مگر یہ انتظار طویل سے طویل تر ہوتا جا رہا تھا۔
بالآخر اسے برہان آتا دیکھائی دیا وہ سیدھا اسی کی طرف آیا وہ سیدھی ہو کے بیٹھ گئی۔برہان کے چہرے پہ سنجیدگی کا تاثر نمایاں تھا جیسے وہ جانتا تھا کہ شزرا کیا بات کرنے آئی ہے۔
"شزرا آپ نے کوئی بات کرنی تھی" برہان نے گم سم بیٹھی شزرا کو مخاطب کیا شزرا نے اپنے خیالوں سے چونک کے اسے دیکھا۔
آج صبح کتنی ہمت مجتمع کر کے اس نے برہان کو ملنے بلایا تھا یہ صرف وہی جانتی تھی۔فون کو کان سے لگائے اس کی آواز بارہا کانپی تھی مگر وہ مضبوط بنی رہی۔
اور جب برہان نے اس سے یہ کہا کہ وہ جانتا ہے وہ اسے ملنے کیوں بلا رہی ہے وہ جی جان سے کانپی تھی۔
اور اب وہ اسکے سامنے تھا تو وہ نظریں بھی نہیں اٹھا پا رہی تھی گلے میں گٹلی سی ابھر کے معدوم ہوئی۔
"شزرا آپ مجھ سے کوئی بات کرنا چاہتی تھیں؟" ایک بار پھر تحمل سے سوال پوچھا گیا۔
"جی۔۔۔۔۔۔" اس نے یک لفظی جواب دیا اور پھر خاموش ہو کے بیٹھ گئی۔
"وہ یہ رشتہ۔۔۔۔۔۔" شزرا نے تھوک نگلتے ہوئے بات کا آغاز کیا مگر دوسری طرف اس کی بات اچک لی گئی۔
"جی میں نے رشتہ بھیجا تھا اب بڑے ڈیسائڈ کر لیں گے" دوسری طرف شان بے نیازی تھی جیسے تمہیں اس سب سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے۔
"لیکن مجھے کچھ کہنا ہے" اس نے ایک بار پھر کوشش کی۔
"شزرا یہ بات بڑے ڈیسائڈ کر لیں گے۔برہان نے ایک ایک لفظ پہ زور دے کے کہا۔
"لیکن میں آپ سے شادی نہیں کرنا چاہتی" شزرا نے روہانسے لہجے میں کہا جیسے اب وہ رو دینے کو بےتاب تھی۔
"کیوں نہیں کرنا چاہتیں؟" برہان نے ٹھنڈے لہجے میں کہا۔
"کیا میری مرضی کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟" شزرا نے آنسو پیتے ہوئے کہا۔
"بلکل اہمیت ہے آپ کی مرضی کی لیکن ابھی آپ کو اپنے اچھے برے کا پتہ نہیں ہے" برہان اسے ایسے سمجھا رہا تھا جیسے اس کے سامنے کوئی بچی بیٹھی ہو اس نے زچ آکر برہان کو دیکھا جس کے چہرے پہ بلا کا اطمینان تھا۔
"میں اپنا اچھا برا اب جانتی ہوں آپ میرے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے" شزرا نے ایک ایک لفظ چبا کے کہا اس کا ضبط جواب دے رہا تھا اس کا دل کیا وہ یہیں بیٹھ کے پھوٹ پھوٹ کے رودے۔
"میں کوئی زبردستی نہیں کر رہا" اس الزام پہ برہان تڑپ ہی تو گیا تھا۔
"پھر یہ زبردستی ہی تو ہے آپ نے میری مرضی کے بغیر رشتہ بھیج دیا" وہ آنسو پیتے ہوئے بولی۔
"کیا جرم کردیا رشتہ بھیج دیا تو" اس بار برہان کا لہجہ تلخ ہوا تھا۔وہ چپ بیٹھی رہ گئی۔
"میں جانتا ہوں آپ آزر کی وجہ سے انکار کر رہی ہیں"اس کا ٹھنڈا لہجہ اسے اپنی رگ و پے میں اترتا محسوس ہوا۔
"یہ مت بھولو کے آزر کی منال سے شادی ہونے والی ہے" وہ انگلی اٹھائے اسے وارن کر رہا تھا وہ حق و دق بیٹھی اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اسے لگا سامنے لگا گرم گرم چائے کا کپ اس کے سر پہ انڈیل دیا ہے اس کی تپش اسے اپنے اندر اترتی محسوس ہوئی۔
"میں کچھ نہیں بھولی اور نہ ہی میں آزر کی وجہ سے انکار کر رہی ہوں آپ کے لئے بہتر ہے کہ آپ میرے راستے میں نہ آئیں" شزرا نے کاٹ دار لہجے میں کہا۔برہان کو اپنا دل اس ظالم لڑکی کے دوپٹے کے رنگین دھاگوں میں الجھتا ہوا محسوس ہوا۔
اس کے دوپٹے کے رنگین دھاگوں نے برہان کے چہرے کے تمام رنگ چرا لئے تھے۔
وہ ہونٹوں پہ مٹھی جمائے پر سوچ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے جس کے نین کٹورے پانیوں سے بھرے تھے۔
"آپ مجھے میری محبت سے دستبردار ہونے کے لئے بول رہی ہیں" جب برہان نے ٹہرے ٹہرے لہجے میں محبت کا نام لیا تو اس کے چہرے پہ ایک تلخ سی مسکراہٹ ابھر کے معدوم ہوئی جسے برہان نے بخوبی محسوس کیا۔
"آپ جانتے بھی ہیں کہ محبت کیا ہے" اس نے کھوئے کھوئے سے لہجے میں پوچھا۔
"بہت اچھے سے جانتا ہوں" اس کے چہرے پہ اس بار کمال کا اطمینان تھا۔
"محبت یہ ہے کہ اپنی بہن کی محبت کے لئے اپنی محبت کی قربانی دے دینا" برہان کا ایک ایک لفظ کسی خنجر کی مانند اسے اپنے دل میں لگتا محسوس ہوا وہ پلکیں جھپکنا بھول گئی کئی ثانیے بس وہ خاموش رہی تھی اس نے اس بار نگاہیں چرانے کی کوشش نہیں کی وہ بیٹھے بیٹھے پتھر کی مورت بن گئی تھی۔
"صحیح وضاحت کی نہ محبت کی" برہان نے ٹھنڈی ہوتی چائے کا گھونٹ بھر کے پوچھا انہیں چائے کا ذائقہ تلخ محسوس ہوا۔
جانے کی چائے کی تلخی تھی یا یہ تلخی اس کیفے ٹیریا کے ماحول میں رچ گئی تھی۔
وہ سر جھکائے اپنے کب کاٹ رہی تھی اور برہان خاموشی سے اس کے چہرے کے اثر چڑھاؤ دیکھ رہے تھے۔
"میں آزر سے پیار نہیں کرتی" اس نے کمزور سی آواز میں احتجاج کیا۔
"میں نے ایسا کب کہا؟" برہان نے ایک آنکھ کی ابرو اٹھا کر اسے دیکھا چہرے پہ اطمینان قابل دید تھا۔
"پلیز برہان آپ مجھے زہنی اذیت مت دیں" بے بسی ہی بے بسی تھی اس نے برہان کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے۔
"میرا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا" برہان فوراً سیدھے ہو کے بیٹھ گئے۔
اطمینان رخصت ہوا تھا۔
بے کلی بڑھی تھی۔
درد دل سوا ہوا تھا۔
انہیں ہر جانب دھواں دھواں سا محسوس ہوا۔
کیا وہ سامنے بیٹھی اس چھوٹی سی لڑکی کو ذہنی اذیت دے رہے تھے۔
پل میں سارا اطمینان رخصت ہوا تھا۔
"تم مجھے غلط سمجھ رہی ہو میں تمہیں پسند کرتا ہوں اس لئے رشتہ بھیجا" برہان نے ٹہر ٹہر کے کہا جیسے وہ خود اپنے لفظ تول کے ادا کر رہا ہو۔وہ آپ سے تم پہ آیا تھا۔
"میں نہیں کرنا چاہتی آپ سے شادی خدا کے لئے میرا پیچھا چھوڑ دیں" شزرا نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے۔
"میں آزر نہیں ہوں جو آپ کے آنسو دیکھ کے پگھل جاؤں گا۔یہ میرا آخری فیصلہ ہے" وہ جواب سنا کے اٹھ کھڑا ہوا پھر شزرا نے اسے کیفے ٹیریا کا گلاس ڈور دھکیل کے باہر جاتے دیکھا۔
____________________________________________________
"بابا کیا آپ مصروف ہیں؟" شزرا نے ان کے کمرے میں داخل ہوتے پوچھا اس کے ہاتھ میں چائے کا کپ تھا شزرا کو آتے دیکھ کر دلاور صاحب نے کتاب ایک طرف رکھ دی وہ جا کے بیڈ پہ ان کے برابر میں بیٹھ گئی۔
"بہت شکریہ بیٹا" دلاور صاحب نے اس نے ہاتھ سے چائے کا کپ تھامتے ہوئے کہا۔
"بابا مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے" شزرا نے جھجھکتے ہوئے بات کا آغاز کیا۔
"میں برہان سے شادی نہیں کرنا چاہتی" اس نے سر جھکائے کہا۔
اس کی آنکھوں ست ایک آنسو ٹوٹ کے دلاور صاحب کے ہاتھ پہ گرا۔
وہ خاموش بیٹھے اسے سن رہے تھے۔
"کیوں نہیں کرنا چاہتیں؟" انہوں نے پیار سے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔
"کیا مرضی کو کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی؟" شزرا نے آنسو پیتے ہوئے پوچھا۔
"آپ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوگا"انہوں نے اس کا ہاتھ تھپکتے ہوئے اسے یقین دلایا۔وہ مسکرا کے ان کے گلے لگ گئی۔
No comments:
Post a Comment