Wednesday, 4 September 2019

Wehshat e ishq by Ramsha Mehnaz ||Episode#11

#وحشتِ عشق
#رمشاء مہناز
#قسط نمبر 11
(Don't copy without any permission)

وہ اسے وہیں چھوڑ کے غصے سے باہر کی طرف بڑھے شزرا جیسے ہوش کی دنیا میں واپس لوٹی اور لپک کے ان پیچھے گئی۔
"آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے" اس نے کمرے سے باہر جاتے آزر کا بازو سختی سے پکڑا آزر نے ایک قہر زدہ نظر اس پہ ڈالی جو رو رہی تھی۔
بے تحاشا رو رہی تھی۔
اس سے ہاتھ چھڑا کے باہر جانے لگے۔
"آزر آپ کو خدا کا واسطہ ہے ایسا نہیں کریں" وہ ان کا مضبوطی سے ہاتھ تھامے فرش پہ بیٹھتی چلی گئی آزر کے بڑھتے قدم رکے تھے انہوں نے حیرت سے اپنے قدموں میں بیٹھی سر جھکائے گے تحاشا روتی اس لڑکی کی طرف دیکھا جس میں ان کی جان بستی تھی اور آج وہ ان کے سامنے کیسے ٹوٹ کے ریزہ ریزہ ہو رہی تھی وہ سرد سی نگاہوں سے اسے دیکھتے رہے پھر خود بھی اس کے سامنے فرش پہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔
"تم کیا سمجھتی ہو کر بار اپنے آنسوؤں سے یا ضد کر کے اپنی بات منوا لو گی" انہوں نے اس کا چہرہ اوپر کرتے ہوئے اس کے آنسو اپنی پوروں پہ چنتے ہوئے کہا وہ امید سے ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔
"پلیز ایسا نہیں کریں میری آپی کو بہت دکھ ہوگا" وہ بولتے بولتے پھر رو پڑی اس کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں آزر چہرے پہ سرد سے تاثرات لئے اسے دیکھ رہے تھے۔
"جو دکھ مجھے ہو رہا ہے اس بارے میں سوچا کبھی تم نے؟" شزرا نے ان کی آنکھوں میں نمی پھیلتی دیکھی تھی وہ بے اختیار نظریں چرانے پہ مجبور ہوئی۔
"میری بات کا جواب دو۔۔۔۔۔میرے دکھ کا اندازہ ہے تمہیں؟" انہوں نے اپنے لہجے کو ہموار کرتے ہوئے کہا شزرا سر جھکائے خاموشی سے فرش کو تک رہی تھی آزر نے اسے افسوس سے دیکھا اور ایک جھٹکے سے وہاں سے کھڑے ہوئے انہیں غصے میں کھڑے ہوتا دیکھ کے شزرا ان کے سامنے آکھڑی ہوئی۔
"آزر پلیز میری بہن کے ساتھ ایسا نہیں کریں۔۔۔۔وہ مر جائیں گی۔۔۔۔آپ جو بولیں گے میں کروں گی میں وعدہ کر رہی ہوں" شزرا نے ان کے یخ بستہ ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا چہرے کے سرد تاثرات کے ساتھ ان کے ہاتھ بھی سرد تھے شزرا کو یہ سردی اپنی رگ رگ میں دوڑتی محسوس ہوئی آزر نے ایک نظر اس کے روئے روئے سے چہرے پہ ڈالی جو رونے کی شدت سے سرخ ہو رہا تھا پھر اپنے دل کو ٹٹولا وہ کیوں اس قدر کٹھور ہو رہے تھے اس کی یہ حالت دیکھ کے ان کے دل نے انہیں ملامت کی وہ ہر بار اس کے سامنے ہار جاتے تھے وہ اپنی تمام باتیں ان سے منوالیتی تھی اس بار بھی وہ منوا چکی تھی وہ تھک ہار کے جا کے صوفے پہ بیٹھ کہ اپنا اشتعال دبانے کی کوشش کرنے لگے۔
برہان کی زبان سے شزرا کا نام سن کے وہ اپنے آپ میں نہیں رہے تھے شزرا پہ کسی اور کا حق ہونے کے خیال نے ہی ان کی روح تک کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا تھا۔
شزرا ان کے سامنے زمین پہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور ان کے سرد ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لئے اس کی کلائیوں سے ہلکا ہلکا خون رس رہا تھا آزر کی سخت گرفت کی وجہ سے اس کی چوڑیاں ٹوٹ کے کلائی میں چبھ گئی تھیں مگر وہ اپنی ہر تکلیف سے بے نیاز تھی۔
"آپ مجھ سے وعدہ کریں" اس نے آزر کی سرخ آنکھوں میں جھانکتے نم لہجے میں کہا اس کا ٹوٹا بکھرا لہجہ اپنی الگ ہی کہانی بیان کر رہا تھا۔
"تمہارا ہاتھ" آزر نے تڑپ کے اس کے زخموں پہ اپنا ہاتھ رکھا اس نے ضبط سے نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبا لیا آنکھوں سے اشک رواں ہو گئے۔
"آپ آپی کو کبھی کوئی تکلیف نہیں دیں گے" اس نے ان کی بات نظر انداز کر کے کہا وہ کمال ضبط سے اپنی تکلیف چھپا گئی تھی۔
"میں کبھی جان کے ایسا نہیں کروں گا" آزر نے اسے نظریں چراتے ہوئے کہا اور اپنی جیب سے رومال نکال کے اس کے زخموں پہ ابھرا خون صاف کرنے لگے وہ ایک بات پھر تکلیف سے دو چار ہوئی وہ اس بار تکلیف کی وجہ نہیں جان پائی۔
"انجانے میں بھی نہیں" اس نے ضدی لہجے میں کہا آزر نے ایک نظر اسے دیکھا۔
اس کے زخموں پہ لگا خون صاف ہو چکا تھا وہ اب اس کے ہاتھ میں پہنی کانچ کی چوڑیاں اتارنے لگے۔
کیونکہ جب تک وہ یہ چوڑیاں پہنی رہتی اس کا زخم ہرا ہوتا رہتا۔
شزرا نے آزر کو اپنے ہاتھوں سے چوڑیاں اتارتے دیکھا وہ پل بھر کو ٹھٹکی تھی۔
آزر نے وہ وجہ ہی ختم کردی تھی جس کہ وجہ سے اسے زخم لگا تھا اور دوبارہ اس کا زخم ہرا ہوتا۔
لمحے کے ہزارویں حصے میں اس نے خود کو آزر کی زندگی سے دور لے جانا چاہا۔
وہ بھی تو ٹوٹ گئی تھی انہیں کانچ کی چوڑیوں کی طرح اور اب آزر کا زخم ہرا کر رہی تھی۔
اس نے کمرے میں اردگرد پھیلی کانچ کی چوڑیوں کی جانب نگاہ دوڑائی وہ سن سی ہوئی تھی ہر طرف ٹوٹیں ہوئی چوڑیاں بکھری تھیں جو اب بھی اسے تکلیف پہنچا سکتی تھیں۔
آزر اب اس کے ہاتھ پہ کوئی مرہم لگا رہے تھے اور خالی خالی نگاہوں سے بیٹھی انہیں تک رہی تھی۔
"تم بھی ایک وعدہ کرو" آزر کی سپاٹ سی آواز اسے سنائی دی۔
"جی" اس کے منہ سے صرف اتنا ہی نکل سکا۔
"تم صرف میری ہو کسی اور کا تم پہ کوئی حق نہیں ہے" سرد و سپاٹ لہجے میں بولتے ہوئے پتا نہیں وہ وعدہ لے رہے تھے یا اسے باور کرا رہے تھے۔
"وعدہ کرو" اس وقت وہ شزرا کو صحیح معنوں میں کھونے کے ڈر سے گزر رہے تھے۔
"لیکن آزر" شزرا نے کچھ بولنا چاہا۔

"ٹھیک ہے میں ابھی جا کے یہ منگنی ختم کردوں گا" انہوں نے سفاک لہجے میں کہا شزرا نے بے یقینی سے انہیں دیکھا یہ وہ آزر تو نہیں۔ تھے جن سے اس نے پیار کیا تھا یہ شخص تو کوئی اور ہی تھا اپنی محبت میں کر حد پار کردینے والا اس نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔

"ٹھیک ہے وعدہ" اس نے سر جھکائے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا۔

آزر نہیں جانتے تھے کہ وہ اب محبت میں خود غرض ہو چکے ہیں وہ سمجھ رہے تھے کہ اسے اس وعدے میں باندھ کے اسے ہمیشہ اپنے پاس رکھیں گے اسے کبھی خود سے دور نہیں جانے دیں گے اسے برہان سے دور کر لیں گے مگر یہ سب کی خام خیالی ثابت ہونے والی تھی کیونکہ آج تک قسمت پہ کسی کا زور نہیں چلا ہے۔
قسمت تو جب ناچ نچانے پہ آئے تو کٹھ پتلی بنا کے اپنی مرضی سے جہاں چاہے نچادے۔
ابھی آزر قسمت کی اس ستم ظریفی سے بے خبر تھے۔
"اپنا حلیہ درست کر کے نیچے آؤ" آزر نے اس کے گال پہ بہتے آنسو دیکھ کے نرمی سے کہا اور اٹھ کے چلے گئے وہ خاموشی سے انہیں جاتا دیکھتی رہی۔
شزرا نے ان کے جانے کے بعد آٹھ کے آئینے میں ایک نظر خود کو دیکھا پل بھر میں جیسے وہ اجڑ گئی تھی اسے اپنے چہرے کے نقوش مٹتے ہوئے محسوس ہوئے اس نے اپنا میک اپ ٹھیک کیا اپنے زخمی ہاتھوں کو دوپٹے کے نیچے چھپایا اور چہرے پہ ایک نرم سی مسکراہٹ سجا کے نیچے چلی گئی کوئی نہیں جان سکتا تھا کہ اس کے دل پہ کیا گزری ہے وہ سب کے بیچ ایک بار پھر ہنستی مسکراتی موجود تھی۔
وہاں موجود برہان اسے دیکھ کے الجھ سا گیا تھا کچھ تھا جو ان سب کی نظروں سے چھپایا جا رہا تھا۔
آزر جس طرح اسے گھسیٹ کے لے کہ گیا تھا وہ برہان کی نگاہوں سے چھپا نہ رہ سکا تھا۔
مگر وہ خاموش تھا اسی اثناء میں اس کی نظر شزرا کے دوپٹے میں سے جھلکتے اس کے ہاتھ پہ پڑی وہ پلکیں جھپکنا بھول گیا اس کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا شزرا کے ہاتھوں پہ جا بجا زخموں کے نشان تھے وہ تیزی سے شزرا کی طرف بڑھا۔
شزرا ایک کونے میں خاموش بیٹھی تھی وہ اس کے سامنے جا کے بیٹھ گیا اسے دیکھ کے شزرا یکدم گھبرا کے کھڑی ہوئی۔
"شزرا میری بات سنو" برہان نے نرمی سے کہا مگر شزرا کے ماتھے پہ چمکتے ٹھنڈے پسینے کے قطرے اس کی نگاہوں سے چھپے نہ رہ سکے مگر شزرا وہاں رکنا نہیں چاہتی تھی۔
"شزرا بس دو منٹ کے لئے بیٹھو" اس بار برہان نے سختی سے کہا وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بیٹھ گئی۔
شزرا کو اندازہ ہو گیا تھا کہ آزر کا یہ رویہ برہان کء ساتھ بات کرنے سے تھا مگر اب تو برہان نے اسے محفل میں مخاطب کیا تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ آزر کب آپے سے باہر ہو جائیں مگر اس وقت آزر اسے کہیں نظر نہ آئے وہ جیسے زبردستی بیٹھ گئی۔
"یہ کیا ہوا کے تمہارے ہاتھوں پہ؟" برہان نے کسی لگی لپٹی کے بغیر اس کے ہاتھوں کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔
"کک۔۔۔کچھ نہیں" وہ اس اچانک افتاد سے گھبرا گئی۔
" یہ آزر نے کیا ہے؟" دوسرا سوال پہلے سے بھی زیادہ غیر متوقع تھا وہ اب صحیح معنوں میں ڈری تھی اس کی زبان نے اس کا ساتھ نہ دیا وہ بس بے بسی سے برہان کو دیکھ کے رہ گئی۔
"میں کچھ پوچھ رہا ہوں شزرا" اس بار برہان نے قدرے سختی سے کہا ابھی آزر کے رویے سے وہ ٹھیک طور پہ سنبھلی نہ تھی کہ اب برہان۔۔۔۔۔!!!!
"وہ میں گر گئی تھی" شزرا نے اس کی طرف دیکھے بغیر جھوٹ کا سہارا لیا وہ گہرا سانس کھینچ کے رہ گیا۔
"میں جانتا ہوں یہ سب آزر نے کیا ہے" برہان نے پورے وثوق سے کہا  شزرا کی آنکھوں سے موتی ٹوٹ کے گرنے لگے اس نے فوراً اردگرد دیکھا مگر سب اپنی ہی موج میں مگن تھے۔
"میں آپ کو بول رہی ہوں میں گر گئی تھی تو آپ یقین کیوں نہیں کر رہے" اس بار شزرا نے قدرے ترش لہجے میں کہا اور اٹھ کے وہاں سے چلی گئی مگر اس کا جیسے باہر آنے کو بیتاب تھا۔
تقریب ختم ہوئی تو شزرا نے سکھ کا سانس لیا اور فورا اپنے کمرے میں چلی گئی اسے کچھ دیر تنہا رہنا تھا آج اس کے اعصاب بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے تھے۔
آج آزر کا رویہ اسے بری طرح توڑ چکا تھا وہ اب بھی صدمے اور بے یقینی کی کیفیت میں گھری بیٹھی تھی پہلے آزر کا رویہ اور پھر برہان وہ جیسے اپنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں کھوتی جا رہی تھی۔
وہ اٹھ کے کپڑے چینج کرنے چلی گئی وہ چینج کر کے اور منہ ہاتھ دھو کے ہاہر آئی تو اس نے آزر کا اپنا منتظر پایا وہ خاموشی سے انہیں تکتی رہ گئی۔
" یہ میڈیسن لے کو دودھ کے ساتھ" آزر نے سائڈ ٹیبل پہ پہن کلر اور دودھ کا گلاس رکھتے ہوئے کہا اور اس کی طرف دیکھے بغیر اس کے روم سے چلے گئے۔
آزر نے اپنے روم میں آکے جیسے ڈھے سے گئے آج انہوں نے شزرا کو بہت تکلیف دی تھی وہ جانتے تھے مگر یہ اس تکلیف سے بہت کم تھی جو وہ سہہ رہے تھے ٹھنڈے پانی سے شاور مے کہ انہوں نے خود کو کافی حد تک ریلیکس کیا وہ بھی اعصابی طور پہ بے حد تھک چکے تھے بس اب سونا چاہتے تھے مگر نیند ہی آنکھوں سے جیسے روٹھ گئی تھی ان کی نظروں میں بار بار شزرا کے آنسو آکے ٹہر جاتے اور وہ بے چین ہو جاتے بالآخر نیند بھی ان پہ مہربان ہو ہی گئی۔

No comments:

Post a Comment