Wednesday, 4 September 2019

Wehshat e ishq by Ramsha Mehnaz ||Episode#12

#وحشتِ عشق
#رمشاء مہناز
#قسط نمبر 12
(Don't copy without any permission)

اگلے کچھ دن خاموشی کی نظر ہوئے تھے شزرا اور آزر دونوں ہی ایک دوسرے سے بچتے پھرتے دونوں حتی الامکان کوشش کرتے ایک دوسرے سے سامنا نہ ہو مگر ایک گھر میں رہتے ہوئے یہ ممکن نہیں تھا مگر شزرا نے اس ناممکن کو ممکن بنا لیا تھا اب وہ آزر کی موجودگی میں اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلتی اس بات کو آزر شدت سے محسوس کرتے تھے۔
ان کے منگنی والے دن کے رویے کے بعد شزرا ان سے بہت دور چکی گئی تھی اتنا دور کہ وہ سامنے بیٹھی ہوتی ہو بھی میلوں کے فاصلے پہ لگتی مگر اب یہ فاصلہ پار کرنا آسان نہیں تھا۔
وہ صبح بھی ایک عام سی صبح تھی مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ رات ہوتے ہوتے اپنے ساتھ کتنے ہنگامے لائے گی۔
صبح سے ہی شزرا کا دل جیسے کسی انہونی کا پتہ دے رہا تھا۔
آزر کے ماموں مامی کی دوپہر میں کال آئی تھی کہ وہ رات تک آئیں گے کچھ ضروری بات ہے۔
بس جب سے ہی شزرا کا دل ہول رہا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اس منظر سے وہ خود کو غائب کر لے۔اس کا دل جس خدشے کے تحت دھڑک رہا تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ خدشہ صحیح ثابت ہو پھر آزر کو سنبھالنا اس کے بس سے باہر تھا۔
ابھی بھی وہ پریشانی کے عالم میں بھری دوپہر میں گھر کے پچھلے باغ میں بنی چھت پہ جاتی سیڑھیوں پہ سر جھکائے بیٹھی تھی۔
"شزرا تم یہاں بیٹھی ہو میں نے تمہیں پورے گھر میں ڈھونڈ لیا" منال نے گھر کے پچھلے میں شزرا کو خاموشی بیٹھے دیکھ کے کہا۔
"جی آپی کوئی کام تھا" شزرا فورا سیدھی ہو بیٹھی۔
"نہیں۔۔۔کوئی کام نہیں تھا۔۔۔۔بلکہ سب کاموں سے فارغ ہو کے تمہیں ڈھونڈ رہی تھی" منال نے مسکرا کے کہا اور اس کے برابر میں بیٹھ گئی۔
"ہہمم۔۔۔۔" شزرا نے اثبات میں سر ہلا کے نظریں سامنے کھڑے درخت پہ جما دیں جہاں پرندوں کے بے شمار گھونسلے تھے مگر زیادہ تر شاید خالی تھے اکا دکا گھونسلوں میں سے ان کے بچوں کے چہچہانے کی آواز آجاتی جو اس بھری دوپہر میں نہایت بھلی لگ رہی تھی۔
پھر اس نے کسی پرندے کی درد تکلیف سے کراہنے کی آواز سنی وہ بے چین ہو اٹھی۔
"آپی یہاں کوئی پرندہ درد سے کراہ رہا ہے" اس نے اس پیڑ کی سمت دیکھتے ہوئے بے چینی سے کہا۔
"ہم کچھ نہیں کر سکتے ان کے لئے اگر ہم قریب بھی گئے تو چیل کوئے ہمیں ہی نقصان پہنچائیں گے" منال نے سرسری لہجے میں کہا۔
وہ صرف اسے دیکھ کے رہ گئی۔
وہ بھی تو درد سے کراہ رہی تھی اور منال بے نیاز تھی اسے خبر ہی نہیں تھی کہ شزرا کے دل پہ کیا گزر رہی ہے اسی طرح منال اس پرندے کے دکھ سے بھی بے خبر تھی۔
وہ اتنی بے خبر کیسے ہو سکتی تھی۔
اس کا دل یکدم ہی دکھ سے بھر گیا۔
"آپی کیا آپ کو اس پرندے کی تکلیف محسوس نہیں ہو رہی؟" اس نے ایک موہوم سی امید کے تحت پوچھا پتہ نہیں وہ کہا سننا چاہتی تھی وہ کہا پوچھ رہی تھی۔
وہ اس وقت اس پرندے کی جگہ خود کو محسوس کر رہی تھی وہ سننا چاہتی تھی کہ ہاں منال کو اس کا درد محسوس ہوتا ہے وہ اپنی محبت میں اس کی ذات سے بے خبر نہیں ہوئی ہے۔
مگر دوسری طرف بے نیازی تھی۔
"شزرا اس پرندے کے لئے ہم کیا خود کو مشکل میں ڈالیں" منال اس کے بے سروپا سوالات سے عاجز آ چکی تھی۔
"کیوں کیا ہم کسی دوسرے کے لئے خود کو مشکل میں نہیں ڈال سکتے" اس نے ایک موہوم سی امید کے تحت ایک اور سوال کیا۔
"ڈال سکتے ہیں۔۔۔بلکل ڈال سکتے ہیں" منال نے چمکتی آنکھوں سے کہا اور اٹھ کے اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
"مگر ہمیں یہ بھی تو یقین ہو کہ ہمارا یہ عمل سامنے والے کے لئے خوشی کا باعث بنے گا۔۔۔۔۔ہم اپنی بیوقوفی میں کوئی غلطی تو نہیں کرنے جا رہے۔۔۔۔۔جسے ہم بھلائی سمجھ رہے ہیں کہیں وہ سامنے والے کے لئے مشکل نہ کھڑی کردے" منال آرام  سے اسے سمجھا رہی تھی اور شزرا کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھا کر اسے لے کہ تھوڑا آگے بڑھی۔
"یہ دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" اس نے قدرے نیچی ڈالی پہ بنے ایک گھونسلے کی طرف اشارہ کیا غالباً یہں سے آواز سے آرہی تھی وہ کسی کبوتر کا گھونسلہ تھا وہاں کوئی درد سے نہیں کراہ رہا تھا بلکہ وہ چھوٹے چھوٹے بناء پروں کے بچے ایک دوسرے سے کھیلنے میں مصروف تھے۔
"شاید پل بھر کو کوئی رویا ہو مگر اگلے ہی پل یہ پھر سب بھول بھال کے کھیلنے میں مگن ہیں" منال نے شزرا کے چہرے کی طرف بغور دیکھتے ہوئے کہا شزرا سن سی کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی۔
"اگر ہم اپنے جوش میں گھونسلہ ڈھونڈنے کھڑے ہوتے تو نہ جانے کتنے پرندوں کو اڑا دیتے مگر جب غور کیا تو یہ آواز یہاں سے آرہی تھی" منال بول تھی اور وہ سن رہی تھی اور صرف سن ہی رہی تھی اس کا دماغ کچھ نہیں سوچ رہا تھا۔
اسے منال کی باتشسن کے ایک پل کو یہ لگا کے اس نے شاید جلدی میں کوئی غلط فیصلہ کرلیا ہے اسی بات پہ اس کا دل کچھ پلوں کے لئے دھڑکنا بھولا مگر اگلے ہی پل اس نے خود کو تسلی دی تھی کہ شاید آزر کا رویہ شروع میں تھوڑا خراب رہے پھر شاید وہ سب کچھ بھول کر اپنی زندگی میں مگن ہو جائیں۔
اس کے دل سے منال کے ہمیشہ خوش رہنے کی دعا نکلی تھی۔

____________________________________________________

رات میں آزر کے ماموں مامی اور سویرا ان کے گھر آکے تھے برہان ساتھ نہیں آیا تھا۔
شزرا کا دل پل پل سمٹ کے مٹھی میں آرہا تھا مگر وہ خود کو سنبھالے ادھر اُدھر مصروف تھی۔
اس وقت بھی سب ڈرائینگ روم میں بیٹھے باتیں کرنے میں مصروف تھے اور شزرا کچن میں منال کا ہاتھ بٹا رہی تھی اسی اثناء میں آزر اسے آفس سے آتے دیکھائی دیئے وہ سیدھا اپنے روم کی طرف بڑھے مگر ڈرائینگ روم سے آتی آوازوں نے ان کے قدم جکڑ لئے وہ اپنے روم میں جانے کے بجائے کچن کی طرف آگئے۔
"کوئی آیا ہے کیا گھر میں؟" انہوں نے شزرا کو نظر انداز کر کے منال کو مخاطب کیا اور فریج سے پانی کی بوتل نکال کر گلاس میں پانی انڈیلنے لگے۔
"جی وہ آپ کے ماموں مامی آئے ہیں" منال نے جواب دیا۔یہ پہلا موقع تھا جب آزر نے خود سے منگنی کے بعد منال کو مخاطب کیا تھا۔
شاید گلاس میں سے پانی چھلکا تھا انہوں نے ایک قہر زدہ نظر شزرا کے جھکے سر پہ ڈالی جو کانپتے ہاتھوں سے سلاد کے لئے سبزیاں کاٹنے میں مصروف تھی اس نے آزر کی نگاہیں خود پہ محسوس کر لی تھیں گھبراہٹ میں یکدم ہی اس کی انگلی میں گہرا کٹ لگا۔
"آہ۔۔۔۔" اس کے منہ سے کراہ نکلی آزر پانی کا گلاس چھوڑ کر فوراً اس کی طرف بڑھے زخم کافی گہرا لگا تھا اس کی انگلی سے خون بھل بھل بہہ رہا تھا۔
"منال فرسٹ ایڈ باکس لے آؤ" انہوں نے شزرا کے زخم کو بغور دیکھتے ہوئے کہا منال گھبرا کے جلدی سے کچن سے نکل کر باکس لینے چلی گئی۔شزرا نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی مگر انہوں نے گرفت مضبوط کردی۔
"پلیز چھوڑیں میرا ہاتھ" اس نے بھیگے لہجے میں کہا۔
"منال کو آنے دو زخم گہرا ہے" انہوں نے رسان سے کہا اور ٹشو پیپر سے اس کے ہاتھ سے بہتا خون صاف کر نے لگے۔
"آج تمہارا زخم دیکھ کے مجھے تکلیف نہیں ہو رہی" آزر نے ایک تلخ سی مسکراہٹ کے ساتھ سرد و سپاٹ لہجے میں کہا۔ان کی بات پہ شزرا کے دل میں ایک ٹیس سی اٹھی۔
اسے کیوں درد ہو رہا تھا وہ یہی تو چاہتی تھی کہ آزر اس کے راستے سے ہٹ جائیں اس سے محبت نہ کریں تو کیوں اس کی آنکھیں بھیگی ہیں۔
"اچھی بات ہے نہ" اگلے ہی پل اس نے خود خود کو سنبھال کے ان کی طرف دیکھتے ہوئے نرمی سے کہا جیسے کوئی معمول کی بات کی گئی ہو۔وہ پل بھر کو ششدر ہوئے۔
کیا سامنے کھڑی لڑکی اتنی ہی ظالم تھی کہ اسے ان کی آنکھوں سے چھلکتی محبت نہیں دیکھ رہی تھی۔وہ پلک تک نہ جھپک سکے۔
"تمہیں کوئی فرق نہیں پڑتا اس بات سے تو یہ آنسو کیوں؟" انہوں نے اس کی پلکوں کے کنارے پہ اٹکا موتی اپنی پوروں پہ چنتے ہوئے  نرمی سے کہا مگر شزرا کو ان کا لہجہ تمسخر اڑاتا لگا۔مگر وہ تو اس کے چہرے پہ کسی دکھ کی تحریر پڑھنے کی کوشش کر رہے تھے مگر وہاں اجنبیت کے سوا کچھ نہیں تھا۔
"لیں یہ فرسٹ ایڈ باکس" منال نے کچن میں آتے ہی باکس ان کے سامنے کیا۔
"تم کردو" انہوں نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا اور وہاں سے لمبے لمبے ڈنگ بھرتے چلے گئے۔وہ ان کے قدموں کی مخصوص چاپ کو خود سے دور ہوتا محسوس کرتی رہی۔

وہ دونوں چائے لے کہ ڈرائنگ روم میں گئیں تو سب بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے وہ دونوں سب کو چائے سرو کرنے لگیں۔
اسی اثناء میں آزر بھی آگئے وہ آکے امین صاحب کے برابر میں بیٹھ گئے۔
"شزرا بیٹی ادھر آؤ" آزر کی مامی نے جہاں آرا بیگم نے پیار سے شزرا کو اپنے پاس بلایا۔
شزرا کو سمجھ نہیں آیا انہوں نے کیوں اسے اپنے پاس بلایا ہے لیکن وہ جا کے ان کے برابر میں بیٹھ گئی۔
"بھائی صاحب اگر آپ لوگوں کا جواب ہاں میں ہوا تو ہمیں بہت خوشی ہوگی" انہوں نے امین صاحب اور دلاور صاحب کو مخاطب کر کے کہا اور شزرا کے ہاتھ پہ پیسے رکھے۔
شزرا کو اپنے قدموں مے نیچے سے زمین ہلتی محسوس ہوئی اس کا ڈر اس مے سامنے آکھڑا ہوا وہ ساکت سی نگاہوں سے اپنے ہاتھوں پہ رکھے شگون کے پیسوں کو دیکھ رہی تھی۔اس نے بے چینی سے پہلو بدلا۔اسے لگا اس کے حواس اس کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ نظر اٹھا کر سامنے صوفے پہ بیٹھے آزر کی طرف دیکھ لیتی۔
دوسری جانب آزر کے دل و دماغ میں بجلیاں سی کوند گئیں وہ حیرت و بے یقینی کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔
اس کی نظریں صرف آزر کے قدموں پہ جمی تھیں پھر اس نے ان قدموں کو وہاں سے جاتے دیکھا کچھ دیر بعد وہ بھی اٹھ کے اپنے روم میں آگئی۔
آنسو تواتر سے بہنے لگے کچھ ہی دیر میں جانے کتنے آنسو نکل کر بے مول ہوئے تھے۔
رات کے دو بج رہے تھے مگر آزر گھر نہیں لوٹے تھے۔
جانے کہاں کہاں کی خاک چھان رہے تھے۔
پچھلے کئ گھنٹوں سے وہ مسلسل گاڑی سڑکوں پہ دوڑا رہے تھے ان کے دماغ میں اس وقت جھکڑ چل رہے تھے۔
ان کی آنکھیں اس وقت لہو رنگ تھیں۔
کسی بہت اپنے کو کھونے کا دکھ کیا ہوتا ہے یہ کوئی آزر سے پوچھتا جو پل پل اس اذیت سے گزر رہے تھے۔
کچھ دیر بعد وہ گھر پہنچے تو سب سو چکے تھے گھر میں سناٹا طاری تھا مگر جب شزرا کے روم کے سامنے سے گزرنے لگے تو اندر سے رونے اور سسکنے کی آوازیں آرہی تھیں وہ بلا ارادہ ہی دروازہ کھول کر اندر بڑھے مگر اگلے ہی پل سامنے کا منظر دیکھ کے دنگ رہ گئے۔

No comments:

Post a Comment