Thursday, 5 September 2019

Fahash Nigar.....Manto By Zarak Mir

فحش نگار ....منٹو ........
زرک میر
لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان آئے مہاجروں نے کچھ اچھا کام نہ کیا ....ہندوستانی مہاجر آئے انہوں نے سندھ دھرتی پر قبضہ کرلیا ....بلوچستان میں افغان مہاجرین نے منشیات اوراسلحہ کلچر کو متعارف کرایا........اورمنٹو نے فحش نگاری کاکلچر متعارف کرایا....منٹو شہری بننے سے پہلے مرگیا ....وہ مرنے کیلئے ہی لاہور آیا تھا ۔ ہندوستان سے آنے والے مہاجرین لاہور آئے تو انہیں ٹرینوں کے دروازے بند کرکے اوراسٹیشنوں پر ڈنڈے لئے کھڑے پنجابی نوجوانوں نے پاکستان کا راستہ دکھایاا ورکہا کہ پاکستان آگے ہے کیونکہ یہ مہاجرین کام کے نہیں تھے ‘ان مہاجروں میں جون ایلیاءاوربھائی الطاف حسین کی پہچان کرنا مشکل تھا اس وقت ۔یہ ہندوستانی مہاجر کراچی آگئے بلکہ لائے گئے بسائے گئے خود جی ایم سید نے ان کیلئے اسٹیشنوں پر چاول کی پکی پکائی دیگیں لائے اوران کو کھانا کھلایا ۔ اب یہ کراچی حیدرباد سکھر اورمیر پورخاص جیسے علاقوں پراکثریتی کا دعویٰ رکھتے ہیں ۔حقیقی پاکستان بنانے والے لوگ کہلاتے ہیں ۔ان علاقوں کو الگ بظاہر الگ جبکہ الگ وطن بنانا چاہتے ہیں ۔
بلوچستان میں سوویت یونین کی جہادکے بدلے افغانیوں کو لاکھوں کی تعداد میں سرحدیں کھول کر حقیقی پاکستان میں داخل کیاگیا ۔کھانا کھلایاگیا اوربسایاگیا ۔بلوچستان میں روایتی اسلحہ تو ہر گھرمیں پہلے سے موجودتھا ‘چلم اورنسوار کا رواج بھی عام تھا لیکن ان افغانی ان دونوں صنعتوں کو ترقی دینے کا سبب بنے ۔گویا نیم جاگیردارنہ اورسردارانہ سماج میں صنعتی دورکاآغاز ہوگیا ۔مشین گنیں روایتی ڈھاڈری بندوق کا منہ چڑھانے لگیں ‘ نسواراورچلم چرس ہیروئن تریاق کے سامنے پانی پانی ہوگئے ۔اب کاروبار وسعت پاگیا ‘مہاجرین نے افغانستان سے سمگلنگ کے ذریعے بلوچستان کے مفلوک الحال عوام کو اس کام میں ایسا ہنر مند بنایا کہ کیا سردار کیا شوہان ‘سب روایتی رشتے ‘پیداواری رشتے اورذرائع پیداوار سب کے سب بدل گئے ۔یہ افغانیوں کا کلچر تھا جو اپنے ساتھ لایا
پورا نام سعادت حسن منٹو تھا نسلی کشمیری تھے ....امرتسر یا لدھیا نہ 
میں رہتے تھے بعدمیں ممبئی چلے گئے ....کہانیاں لکھیں ‘افسانے لکھے 
....دوقومی نظریہ کے متاثرین میں وہ بھی شامل تھے کہ وہ لاہور آگئے ....یہاں کچھ ہی سال بیت گئے کہ مرگیا ....صفیہ منٹو(اہلیہ منٹو) نے کہا کہ پاکستان آنے کے بعدمنٹو بدل گیا ‘معاشی حالت خراب ہوگئی ‘شراب کانشہ بڑھ گیا ‘ممبئی میں بھی نشئی لوگ دوست تھے پران میں کام کے لوگ بھی تھے ....پاکستان میں کہانی الگ ہے ہر وقت بے کارلوگوں کیساتھ نشہ اورصرف نشہ ........ممبئی جانے کیلئے پاسپورٹ بنانے کیلئے دیا ....ٹیکنیکل غلطی ہوگئی تو پاسپورٹ نہ بن سکا ....کہا یا رسب کتابیں ممبئی میں ہیں جس دوست کے پاس ہیں وہ باربار خط بھیج رہاہے کہ مجھے مکان بدلنے پڑتے ہیں تمہاری کتابیں کہاں کہاں لئے پھروں گا....اورپھر کچھ پیسے بھی کہانیوں اورافسانوں کے رہتے ہیں وہ بھی لیتے آﺅنگا ........کبھی کبھی واپسی کا سوچتے تو صفیہ منع کرتی کہ پاکستان مسلمانوں کیلئے بنا ہے تو بس اب یہی رہنا ہے ....واپس نہ جاسکے منٹو ....لیکن ان کے قریبی دوست اسد نے لکھا ہے کہ منٹو کی امرتسر سے ممبئی جانے کا سفر اوروہاں کی زندگی اورلاہور آنے کی زندگیوں میں منٹو میں بڑا فرق پایاجاتاہے ........یہاں روز افسانے لکھنے بیٹھ جاتے کیونکہ روز پیسے ملنا ضروری تھا ورنہ شراب کہاں سے آ تا....کسی نے فرمائش کی کہ ناول لکھو تو منٹو کہنے لگے ........ناول کیلئے زیادہ وقت درکارہے جبکہ مجھے روز کے روز پیسے چاہیئے جو افسانوں سے ملنا ہی ممکن ہے ........
منٹو نے کھوٹے پر لکھا ....رنڈیوں کی حالت زار پر لکھا ....لوگ اس گند کو گند رہنے دینے پر اکتفاءکئے ہوئے تھے ....منٹو ذہنی عارضے کاشکارتھا کہ ....یہ گند ہے تو کیوں گند ہے اورگند میں وہ مہک ڈھونڈتا رہا ........اس نے اس تلاش میں فحش نگاری کو جنم دیا ........وہ مہک ڈھونڈنے کیلئے لکھتا ....لیکن معاشرے کے پارسا بلکہ مہا پارسا طبقوں کو یہ گند ....گند ہی لگا وہ منٹو کو فحش نگار کہنے لگے ............جتنی صفائی کروگے ....انتا ہی کچرہ نکلے گا ........ منٹو یہ دیکھتا رہا کہ یہ معاشرہ کچرے کا ٹوکرہ ہے جس کی جنتی صفائی کرو اتنا کچرہ نکلے گا ........وہ اس کا کھوج کررہے تھے لیکن پارسا لوگ اسے فحش سمجھتے رہے ........گویا مرد اورعورت لفظ استعمال کیاجائے تو اس میں اگر کوئی فحاشی ڈھونڈنا چاہئے تو ڈھونڈ سکتاہے کیونکہ عورت اورمرد دونوں فحش ہی تو ہیں ........ ان فحش افسانوں میں منٹو نے وہ کردار ڈھونڈا جس کی اسے تلاش تھی ........اوراسے فحش نگاری کا لقب دینے والے معاشرے کے اس بدبودار فعل میں برابر کے شریک تھے ....تب ہی تو انہیں اس سے گن آتی تھی کہ منٹو رنڈیوں پر کیوں لکھتا ہے ؟ایسا کیوں لکھتا ہے ؟ یہ بھی کوئی بلا موضوع ہوا لکھنے کیلئے ........لیکن اس ........ انتخاب.... نے منٹوکوفحش نگار کا خطاب دیدیا ........گرو رجنیش نے کہا کہ میں نے سینکڑوں موضوعات پر لیکچر دیئے لیکن میرے سیکس سے متعلق لیکچر کی کتابیں سب سے زیادہ متنازعہ رہیں ........اس سے اندازہ لگالیجئے کہ سیکس اس قدر اس معاشرے کا اہم مسئلہ ہے ........منٹو نے اس نظر اندازطبقے کی حالت زار کو اس خوبصورتی سے پیش کیا کہ ........مخالف فحش اوربس فحش کا ہی الزام لگاسکے ........
........منٹو پر آخری مقدمہ ”اوپر نیچے درمیان “فیچر پر چلا تھا۔یہ دلچسپ بات قابل ذکر ہے کہ ”اوپر نیچے دمیان “پہلے لاہور میں ”احسان “اخبار میں شائع ہوا تھا اسے ”پیام مشرق کراچی “ نے نقل کیا تھا اورمقدمہ کراچی ہی کی کچہری میں چلا....کچہری سے منٹو کو بڑی نفرت تھی ....ہزار بارکہتے تھے کہ کچہری سے زیادہ گھٹیا اورمہمل جگہ کوئی اورنہیں لیکن اس نفرت کے باوجود کچہری سے انہیں اکثر سابقہ پڑتارہتاتھا ۔کراچی سے ان کے نام وارنٹ آیا....انہوں نے ضمانت کروادی اورمحمد طفیل صاحب کے اصرار پر کراچی جانے کیلئے راضی ہوگئے........
منٹو نے کہا کہ میں جب کچہری میں پیش ہوا تو میں نے کافی پیا ہوا تھا.... میں نے مجسٹریٹ سے درخواست کی کہ میرے مقدمہ کا جلد فیصلہ کردیاجائے کیونکہ میں لاہور سے آیاہوں اوربیمارہوں“
جب مجھے مجسڑیٹ نے اس قدر بے تاب دیکھا اورکہا ”آپ سعادت حسن منٹو ہیں نا؟آپ بیٹھئے “مجھے مجسٹریٹ کے حسن سلوک نے بڑاحیران کردیا میں مجرم تھا اورعدالت میں اپنے جرم کے باعث پہنچا تھا مگرمجسٹریٹ مجھے نہایت نرمی سے بیٹھنے کیلئے کہہ رہاتھا........بہرحال میں بیٹھ گیا اورمیں نے کہا جناب میں ”اوپر سے نیچے درمیان “فیچر کامصنفت ہوں مجھے یہاں ”فحش نگاری “ کے جرم میں حاضر ہوناپڑا ہے میں اقبال جرم کرتاہوں‘ابھی میرا فیصلہ کردیاجائے “
مجسٹریٹ نے کہا ”میں ابھی تو فیصلہ نہیں کرسکتاچونکہ میں آج اس فیچر کا مطالعہ کرونگا اورکل فیصلہ سناﺅں گا“
....خیر میں مان گیا........
دوسرے دن مجسٹریٹ نے پوچھا ”آپ کی مالی حالت کیسی ہے ؟ میں نے کہا ”بہت خراب “
مجسٹریٹ نے پوچھا ”آج تاریخ کیا ہے؟
کسی نے کہا ”25 تاریخ ہے آج “
مجسٹریٹ نے فیصلہ سنا دیا ”25 روپے جرمانہ “ 
سزا سنانے کے بعد مجسٹریٹ نے منٹو سے ملنے کی خواہش کا اظہارکیا دوسرے دن زیلن کافی ہاﺅس میں ملاقات ہوگئی“
مجسٹریٹ بڑا پڑھا لکھا آدمی تھا........کہا منٹو میں نے روسی فرانسیسی اورانگریزی ادب کا بڑا مطالعہ کیا ہے لیکن ........فن افسانہ کے ”امام “ تم ہو....تم دوسری زبانوں کے عظیم ادیبوں سے بھی زیادہ عظیم ہو“
میں نے ان سے کہا ”آپ نے مجھے سزاکیوں دی ؟
مجسٹریٹ نے کہا کہ ”چونکہ وہ تحریر میری نظر میں ”فحش“ ہے ۔
میں نے کہا ”فحش کسے کہتے ہیں ‘فحش کی تعریف کیا ہے ؟
مجسٹریٹ نے کہا ”میں آ پ کو دوسال بعد بتلاﺅں گا ابھی نہیں “
میں نے ان سے وعدہ لے لیا ہے اوروہ شاہد دوسال بعد” ریٹائر ہونے کے بعد وجوہات بتلائے........
............چنانچہ فحش نگاری کی تعریف کئے بغیر لوگ منٹو کو فحش نگارکہتے رہے ........نہ تو وہ خود سمجھ سکے اورنہ ہی وہ جو انہیں فحش نگارکہتے تھے .... ایک بارعدالت میں فحش نگارثابت کرنے کیلئے منٹو کے خلاف ایک ہندو کو پیش کیاگیا........جس نے کہا منٹو فحش نگار ہے ....جواباً پوچھاگیا کیسے ؟ وہ کہنے لگے فحش کا لفظ فحش ہے ‘جذبات ابھارتا ہے ....مجھے تو ہمارے ہاں آج کا مستعمل قومی اصطلاح قومی مفاد ” رنڈی “ سے زیادہ فحش لگتا ہے ....رنڈی سے زیادہ ایمان دار بیوپار نہیں دیکھاگیا جو خالص عزت بیچتا ہے جس میں بے ایمانی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا .... رنڈی نہ تو اللہ کی قسم کھاتی ہے نہ واللہ خیر رازقین کا بورڈ لگاتی ہے ....نہ کوٹے پر ماشاءاللہ لکھواتی ہے نہ ہی مرد کے سامنے لیٹنے سے پہلے بسم اللہ پڑھتی ہے .... نہ تو ثواب کمانے کا ڈھونگ رچاتی ہے نہ بچوں اوربھوک کا واسطہ دے کر خیرات لیتی ہے اورنہ ہی ثواب دارین حاصل کرنے کا نعرہ لگا کر چندہ اکٹھاکرتی ہے ........مولوی کی منطق کے تناظر میں اگر دیکھاجائے تو عین حلال رز ق کماتی ہے رنڈی ....اور بقول ملا جس پر اللہ مہربان ہوتا ہے وہی حلال رزق کماسکتا ہے........منٹو پر فحش نگاری کا ٹھپہ ایسا تھاجس کی آج تک کوئی تعریف ممکن نہیں ہوئی . ........قومی مفاد نامی اصطلاح ........جس کی آج تک کوئی تعریف ممکن نہیں ہوسکی ........ جیسا کہ ہمیں آج تک یہ نہیں بتایاگیا کہ ریاست اورآئین کی موجودگی کے باوجود مفتیوں اورمولویوں کے فتوﺅں کی حیثیت کیا ہے ؟یہاں مخلوط طرز تعلیم پراعتراض کی وجوہات کیا ہیں ؟یہاں عورتوں کے باہر نکلنے اوربغیر برقہ کے نکلنے کے نقصانات کیا ہیں ؟ غیرت کے نام پر قتل کیا ہے؟بچوں اوربچیوں کو سیکس کی تعلیم سے دوررکھنے کی وجوہات کیا ہیں؟ ریاست کے اداروں کی موجودگی میں خارجہ پالیسی پر لمبی لمبی داڑھیوں والے غیر منتخب اورغیر معقول باتیں کرنے والے مولویوں کے اثر ورسوخ کی وجوہات کیا ہیں؟ آبادی پر کنٹرول اورپولیو کے قطرے پلانے پر پابندی کا راز کیا ہے ؟ معاشرے کی بے راہ روی اوربے حسی سماجی ناہموریوں کے سبب ‘کوٹوں پر بیٹھنے والی رنڈیوں کا اصل پس منظر کیا ہے ؟........اگریہ معاشرہ کوٹوں پر جانے والے بے غیرت اورشہوانیت سے بھرے لوگ پیدا کرسکتاہے تو اس معاشرے سے ....رنڈی پیدا کرنے پرحیرانگی کیوں ہوتی ہے؟........ جب تک خریدار موجود ہونگے بازار میں مال آتا رہے گا چاہے جس قدر اس پر پابندی ہو........دلچسپ بات تو یہ ہے کہ منشیات اوراسلحہ کے کاروبار پر بھی پابندی ہے ........لیکن افغان مہاجرین اورریاست کی پالیسیوں سے اس پروان چڑھتے کاروبار پر تو فحش نگاری پر معترض داڑھی بردار لوگوں کوکوئی اعتراض نہیں بلکہ ان کے مدارس ان اسلحہ کے ذخیروں سے بھرے ہوئے ہیں لیکن انہیں منٹو جیسا کمزورجسم کا شخص فحش نگار نظر آتاہے ........ منٹو نے دہکتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا........اس افسانوں سے معاشرے کا گند ایسا باہر آرہاتھا جیسا کہ بند گٹر شہر بھر کی گندیوں کو سڑکوں پر آشکار کرتا ہے ........بلکہ یہ گند تو گٹر کے گند سے بھی زیادہ بدبودار ہے جس کو منٹو نے اپنے الفاظ سے سامنے لایا ........وہ ان رنڈیوں کے احساسات سے معاشرے کو آگاہ کرنا چاہا کہ یہ انسانوں کو وہ طبقہ ہے جو پیار کرنا جانتا ہے ........وفا کرنا جانتا ہے ........احساس کرنا جانتاہے ........دلیر ہے اور مضبوط ہے ........درحقیقت اس بات سے جنت کے رکھوالوں کو چڑھ تھی کہ یہ طبقہ جو مہا برائیوں میں غرق ہے وہ کیسے پیارکرنے والا وفادار ....حساس اوردلیر ہوسکتاہے ........اگر منٹو ان معنوں میں فحش نگار تھے تو ........آج مجھے مولانا طارق جمیل میں سب سے بڑا فحش نگار نظر آتاہے ........فرق یہ ہے کہ منٹو رنڈیوں کی رانوں گالوں ‘ٹمکو اور رقص کا ذکر کرکے ان کی حالت زار بیان کرنا چاہتاتھا ....ان کو معاشرے کا دھتکارے لوگ ظاہر کرتا تھا جس سے جنسی جذبات ابھارنے کی بجائے احساس اجاگر ہوتا ........لیکن طارق جمیل تو مکاری اورعیاری سے ........حوروں کی بات کرکے فحاشی پھیلا رہاہے ....حوروں کی رانوں اورپستانوں کے درمیانی فاصلوں کو انچ اورگزوں سے ناپنے کا ذکر کرتا ہے ........لوگ سبحان اللہ سبحان اللہ کہہ کر مزے لیتے ہیں ........یقین جانیئے طارق جمیل کے سامعین کی وضوبھی بار بار ضعیف ہوتی ہوگی ........طارق جمیل کے بیان سے تو بس حور ہی حور جڑ تے ہیں .... ....وہ ان حوروں کی بے بسی کا ذکر نہیں کررہاہوتا بلکہ ان کو ........مومن کے ........انعام ........ کے طورپر پیش کرتا ہے ....اب انعام کے طورپر حوروں کی حوالگی کو کیا نام دیاجائے ........یہ میں پڑھنے والوں پر چھوڑتاہوں ........

................آج جی بھرکے منٹو یاد آیا ................

Gilla By Asif Majeed

افسانچہ : گلہ
ازقلم:       آصف مجید

شام کے منظر سے بھی گہری اُداسی آنکھوں میں لئیے وہ اپنی حویلی کی کُشادہ چھت پر بیٹھا بظاہر تو سب دیکھ رہا تھا مگر ,  سمندر کے پہلو میں ڈوبتے سورج کا منظر ، چہچہاتے پرندوں کا اپنے آشیانوں میں لوٹنا، آسمان پر بادلوں کا زردی مائل ھونا، تازہ اور دلفریب ھواؤں کے جھونکے سب مل کر بھی اسے مانوس کرنے میں ناکام تھے..
وہ اس قدر گہری سوچ میں گم تھا کہ ہاتھ میں سُلگتا سگریٹ بنا کش لگائے ہی ختم ھونے کو تھا...
حالات بھی بے قابو گھوڑے کی مانند ہوتے ہیں بعض اوقات تو یہ ایسے سر پٹ دوڑتے ہیں کہ انسانی سوچ ان کی گرد کو کبھی نہیں پہنچ سکتی...
بلکل اسی طرح سے وہ بھی شدتِ جنون کے ہاتھوں اپنی شکستہ محبت میں کیے گئے شکؤں اور فیصلوں کو سوچتے ھوئے بظاہر خاموش مگر خود کلامی کی جنگ میں مصروف تھا.. 
ھاں...
مجھے گلہ ہے اپنی ذات سے کہ میرا ہر گلہ ہی بے اثر  کیوں ہے
مجھے گلہ ہے اپنی ذات سے کہ میں ھوں اس قدر بے قرار کیوں مگر
کسی غیر سے تو گلہ ھوتا نہیں پھر کیوں گلہ ہے اپنی ذات سے جبکہ میرا رشتہ نہیں ہے خود سے کوئی.....
چلو میں تجھ سے کرتا ھوں گلہ کیونکہ تُو ہی تو میرا اپنا ہے ..
مجھے گلہ ہے تیری مجبوریوں سے..
کہ تیری ساری مجبوریاں مِل کر بھی میرے انتظار کی وحشت کو کم نہیں کر پاتی....!!!
مجھے گلہ ہے اُس جنون سے جو تیری سوچ سے غافل نہیں ہونے دیتا ...
مجھے گلہ ہے ایسی رات سے جس میں نیند نہیں تیری یاد ہو اور مجھے گلہ اُس نیند سے بھی جس میں کہ تیرا خواب نہ ہو...
مجھے گلہ ہے اُن فاصلوں سے جو حائل ہے تیرے اور میرے درمیان اور مجھے گلہ ہے ہر اُس شخص سے بھی " میسر جنہیں تیرا ساتھ ہے.... 
مجھے گلہ ہے کہانی کہ اس کردار سے جو تجھے بہت پسند ہے مجھے گلہ ہے تیری ہر اُس بات سے جس میں نہ میری بات ہے... 
مجھے گلہ ہے اُن گِلوں سے بھی جو تجھے نہ کبھی پگھلا سکے

سورج سمندر میں ڈوب کر بجھ گیا، بادلوں کی زردی سیاہی میں بدل گئی پرندوں نے بھی خاموشی اوڑھ لی....
ھوا کے زور سے سیڑھیوں کا دروازہ اچانک بند ھوا کھٹک کی آواز قوت سماع سے ٹکرائی تو اس کے خود کلامیوں کے لمحات کا ہجوم ٹوٹا.. اور وہ ماضی کی وحشت سے نکل کر حال کے کرب میں آگرا....

 بےترتیب دل کی دھڑکنیں لیئے اپنے تاریک کمرے کی قید میں لوٹ گیا....

Wednesday, 4 September 2019

Wehshat e ishq by Ramsha Mehnaz ||Episode#14

#وحشتِ عشق
#رمشاء مہناز
#قسط نمبر 14
(Don't copy without any permission)

دوسرے دن شزرا دیر تک سوتی رہی وہ بیدار ہوئی تو اس وقت دوپہر ہو رہی تھی پاس پڑا اس کا موبائل مسلسل وائبریٹ ہو رہا تھا اس نے کوفت سے موبائل اٹھایا اسکرین پہ برہان کا نام جگمگا رہا تھا اٹھائے یا نہ اٹھائے وہ اسی سوچ میں پڑ گئی۔
مگر وہاں برہان کی تعداد  مس کالز تھیں اس نے کال پک کر کے موبائل کان سے لگایا تو دوسری جانب برہان کی آواز سنائی دی۔
"مجھے لگا تمہاری عقل ٹھکانے آگئی ہوگی لیکن پتہ نہیں تم کیا سوچ کے بیٹھی ہو" برہان کی غصے میں بھری آواز اسپیکر سے ابھری شزرا کا سر پہلے ہی چکرا رہا تھا اوپر سے برہان کی باتیں۔
"آپ کیا بولنا چاہ رہے ہیں" شزرا نے بیزاری سے پوچھا۔
"تمہارے گھر والوں نے رشتے سے انکار کردیا ہے" پتہ نہیں وہ اطلاع دے رہا تھا یا پوچھ رہا تھا مگر انداز سے برہمی صاف ظاہر تھی۔
"جی" شزرا نے یک لفظی جواب دیا۔
"ٹھیک ہے آزر کی شادی ہونے دو شاید اس کے بعد تمہاری عقل ٹھکانے آجائے" برہان جانے کیا سوچ کے بیٹھا تھا۔
"میں آزر کی شادی کے بعد دوبارہ اپنے پیرنٹس کو بھیجوں گا مجھے یقین ہے پھر تم انکار نہیں کرو گی" برہان نے سنجیدگی سے کہا اور کال کاٹ دی۔
اس دن کے بعد برہان کے ماں باپ نے اس گھر کی دہلیز شزرا کے رشتے کے لئے پار نہیں کی تھی اور نہ کوئی سوال کیا شزرا نہیں جانتی تھی کہ دلاور صاحب نے کیسے منع کیا مگر بہرحال اس دن کے بعد اس بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی اور نہ برہان نے دوبارہ اس موضوع کو چھیڑا۔
آج کل تو گھر میں آزر اور منال کی شادی کی تیاریاں جاری تھیں اس گھر کی پہلی خوشی تھی تائی امی اور دادو کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ پورے شہر کو دعوت نامے بھیج دیں۔
بازاروں کے روانہ چکر لگ رہے تھے اور پھر گھر پہ ایک محاز کھلا ہوتا کسی سوٹ کی فٹنگ کروانی ہے تو کسی دوپٹے پہ دادو کرن لگوانا چاہتیں۔
"اس سوٹ کے دوپٹے پہ کرن لگواو میںری منال پہن کے بہت خوبصورت لگے گی" دادو مختلف سوٹوں کے دوپٹے ہاتھ میں لے کہ کہتیں۔
تو دوسری طرف تائی امی خوب بھرے بھرے کامدار جوڑے منال کے لئے پسند کر رہی تھیں۔
"منال یہ تم بہت ہلکے ہلکے جوڑے کے رہی ہو بھائی زرا بھاری جوڑے دیکھائیں" پھر وہ خود ہی دکاندار سے مخاطب ہوتیں۔
منال کبھی مسکرا کے رہ جاتی تو کبھی اتنے بھاری بھاری جوڑے دیکھ کے پریشان ہو جاتی مگر اس سب سے بڑی سب کی محبت تھی جو وہ خوب سمیٹ رہی تھی۔
اس سب میں شزرا کی ذات کہیں کھو کے رہ گئی تھی مگر وہ خوش تھی منال کو خوش دیکھ کے۔
آزر یہاں نہیں تھے وہ کام کے سلسلے میں لاہور گئے تھے انہوں نے کہا تھا کہ وہ شادی سے دو دن پہلے پہنچ جائیں گے اس بات پہ شزرا نے سکھ کا سانس لیا تھا ورنہ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے اس کے لئے یہ سب بہت مشکل ہو جاتا۔یہ بات تو وہ بھی جانتی تھی کہ آزر یہاں سے جان بوجھ کے گئے ہیں مگر وہ جان کے بھی انجان بنی رہی۔

____________________________________________________

آج مایوں کی تقریب تھی اور آزر اب تک نہیں لوٹے تھے جبکہ انہوں نے کہا تھا کہ وہ دو دن پہلے لوٹ آئیں گے گھر میں سب ہی پریشان بیٹھے تھے۔
تایا ابو تو انہیں دو دن سے کال کر کے تھک چکے تھے مگر وہ کال اٹینڈ نہیں کر رہے تھے اب تو سب کو فکر ہونے لگی تھی ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ ان سے رابطہ نہ ہو سکے۔
ابھی بھی دوپہر ہونے کو آئی تھی مگر ان سے رابطہ نہ ہو سکا باہر لان میں مایوں کے لئے اسٹیج سج رہا تھا کچھ ہی دیر میں منال کو بھی مایوں بٹھانا تھا مگر اس سارے منظر سے آزر غائب تھے۔
دلاور صاحب اور امین صاحب دونوں بیٹھے آزر کو فون ملا رہے تھے مگر بیل مسلسل جا رہی تھی کوئی اٹھا نہیں رہا تھا۔
لاہور ان کے آفس میں بلڈنگ میں ہر جگہ فون کر کے معلوم کیا جا چکا تھا مگر وہ کہیں نہیں تھے۔
دادو جائے نماز بچھائے بیٹھی آزر کے صحیح سلامت آنے کی دعائیں مانگ رہیں تھیں۔
تائی امی کا مسلسل رونے سے کام تھا ان کی زبان پہ یہی الفاظ تھے" کہیں سے میرے آزر کو لادو" سب پریشان بیٹھے تھے۔
منال اپنے روم میں بند تھی اس نے صبح سے کچھ کھایا پیا نہیں تھا۔
اور شزرا تو اپنی نگاہیں دروازے پہ جمائے بیٹھی تھی اس کی نگاہیں صرف ایک بار آزر کو دیکھنے کے لئے بے تاب تھیں۔
دوپہر کا آگ برساتا سورج ڈھلا تھا وہ سورج گرم تو نہیں تھا مگر اس گھر کے مکینوں کو تپتا ہوا سا لگا۔
اب شام کے سائے گہرے ہونے کو آئے تھے اور اس گھر میں شادی کا سماء اب خاموشی میں بدل چکا تھا۔
لیکن منال کو مایوں کا جوڑا پہنادیا گیا۔
شزرا لان میں آئی تو پورا لان نہایت خوبصورتی سے سجا تھا پیلے اور سفید پھول جا بجا اپنی بہار دکھلا رہے تھے اس کی آنکھیں صبح سے رو رو کے سوج چکی تھیں۔
مین گیٹ سے لان تک آنے والی راہداری کو پہلے اور سفید پھولوں سے ڈھک دیا گیا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے آسمان پہ پھولوں کی چادر تنی ہو مگر سب ویران پڑا تھا۔
اس پھولوں سے ڈھکے گھر کے باسی اندر بیٹھے ایک دوسرے کو تسلیاں دے رہے تھے۔
اور شزرا پھولوں سے ڈھکی راہداری میں دروازے پہ نظریں جمائے کھڑی تھی اسے پورا یقین تھا آزر اس کا مان کبھی نہیں توڑیں گے مگر آنسو ایک الگ ہی کہانی بیان کر رہے تھے۔
سورج غروب ہونے کے قریب تھا ماحول میں عجب سی پراسراریت پھیلی تھی پیلی اور نارنجی شعائیں آسمان سے زمین کی طرف آرہی تھیں۔
پیلے پھولوں اور نارنجی شعاؤں نے اس راہداری کو ایک الگ کہ رنگ بخش دیا تھا اور وہاں کھڑی وہ غم کا پیکر۔
اسے گیٹ سے کوئی اندر آرا دیکھائی دیا آنکھوں کے سامنے دھند بڑھتی گئی دل کی دھڑکن تھم سی گئی وہ دھندلا سا پیکر اس کے قریب آتے آتے واضح ہوگیا آنکھوں کے سامنے سے دھند چھٹ چکی تھی۔
وہ شاید آزر تھے۔
یقیناً آزر ہی تھے۔
وہ اب اس کے سامنے آکے ٹہر چکے تھے اور نا سمجھی سے اسے دیکھ رہے تھے۔
اس نے ہاتھ بڑھا کر ان کے چہرے کو چھونا چاہا اگر یہ نظروں کا فریب تھا تو یہ فریب اس کی جان لے لے گا۔
اس کا ہاتھ آزر کے گال کو چھو گیا وہ ہوش کی دنیا میں واپس لوٹی اور تڑپ کے آزر کے گلے لگ گئی۔
وہ حیران و پریشان اسے دیکھنے لگے جو ان کے سینے سے لگی زار و قطار آنسو بہا رہی تھی کچھ دیر رونے کے بعد دل کا بوجھ ہلکا ہوا تو اپنی پوزیشن کا اسے احساس ہوا وہ جھجھک کے پیچھے ہٹی اور گالوں پہ پھیلے آنسو ہاتھ کی پشت سے صاف کئے۔
"کیوں رو رہی ہو؟" انہوں نے حیران ہوتے ہوئے اس کے رونے کی وجہ پوچھی۔
"آپ کہاں تھے؟ آپ نے کہا تھا آپ دو دن پہلے آجائیں گے اور آج صبح سے سب آپ کو کال کر رہے ہیں آپ کال بھی پک نہیں کر رہے"  بے ترتیب حلیہ، ہکلایا لہجہ اور آنسوؤں سے بھری آنکھوں کے ساتھ ان کے جینے کی وجہ ان سے سوال کر رہی تھی ان کے دل کو کچھ ہوا۔
"میں کام میں پھنس گیا تھا ورنہ دو دن پہلے ہی آجاتا میری آج صبح کی فلائٹ تھی لیکن فلائٹ لیٹ ہو گئی اور میرا فون شاید سائلنٹ پہ لگا رہ گیا" انہوں نے تفصیل بتاتے ہوئے اپنی جیبوں میں ہاتھ مات کر موبائل تلاش کیا اور موبائل نکال کر دیکھا تو وہ واقعی سائلنٹ پہ لگا تھا۔
"آپ اندر چلیں سب بہت پریشان ہیں" شزرا کو سب کی حالت یاد آئی تو انہیں اندر چلنے کو کہا۔
"شزرا اگر آج میں نہ آتا تو" شزرا کے اندر کی جانب بڑھتے قدم ان کا سوال سن کے رکے تھے راہداری میں تنی پھولوں کی چادر میں سے کچھ پھول ہوا کے ساتھ جھڑے تھے فضا میں پھیلی پیلی روشنی اب مزید گہری ہو گئی تھی۔
وہ بے ساختہ مڑی تھی اس نے اس ملگجی روشنی میں آزر کا چہرہ کا دیکھنے کی کوشش کی مگر وہاں کوئی تاثر نہیں تھا۔
"تو شاید میں زندہ نہیں ہوتی" اس نے اسی بے تاثر لہجے میں کہا اور اندر کی جانب قدم بڑھا دیئے۔
آزر اپنی جگہ سن سے ہوگئے۔
جانے کتنی بار ان کے دل میں آیا تھا کہ کاش وہ یہ شادی نہ کریں والا کراچی نہ جائیں مگر ہر بار انہوں نے دل کی اس بے سروپا خواہش پہ کان نہ دھرے۔
آزر اندر پہنچے تو سب والہانہ انداز میں ان کی طرف بڑھے تھے دادو تائی امی دلاور صاحب امین صاحب سب ان کے گرد جمع تھے وہ سب کو جواب دے دے کے تھک گئے تھے۔
منال کو آزر کے آنے کی اطلاع ملی تو وہ بے اختیار ہی سجدے میں چلی گئی۔
اس گھر میں خوشیاں ایک بار پھر لوٹ آئی تھیں۔
مایوں کی تقریب میں مہمان آنا شروع ہو چکے تھے پورا لان برقی قمقموں سے روشن تھا ہر چہرہ مسکرا رہا تھا۔
شزرا تیار ہو کے اپنے روم سے باہر نکلی تو آزر بھی اسی وقت اپنے روم سے باہر نکلے تھے نگاہوں کا تصادم ہوا تھا۔
سفید شلوار قمیض میں وہ بہت نکھرے نکھرے سے لگ رہے تھے بڑھی ہوئی شیو اور سوجی آنکھیں ایک الگ ہی منظر پیش کر رہی تھیں۔
شزرا گولڈن رنگ کاہنگا پہنے کوئی سنہری پری ہی لگ رہی تھی بالوں کی چٹیا بندھی ایک سائڈ پہ ڈلی جس میں سے کچھ آوازہ لٹیں نکل کر چہرے کے اطراف میں پھیلی ہوئی تھیں۔
آزر نے ایک نظر اسے دیکھا اور اگلے ہی پل نظریں پھیر لیں ان کا یوں نظریں پھیرنا شزرا کے دل کو گھائل کر گیا وہ اسے نظر انداز کئے وہاں سے جا چکے تھے۔
وہ خود کو سنبھالتی ہوئی آگے بڑھی اور منال کے روم کی طرف چلی گئی۔
وہ اندر داخل ہوئی تو منال تیار ہوئی آئینے کے سامنے بیٹھی تھی پہلے اور سبز رنگ کا لہنگا پہنے اس پہ روپ ٹوٹ کے برس رہا تھا۔
شزرا اس پل دل سے اس کے خوش رہنے کی دعا مانگی تھی۔
سویرا اور شزرا منال کو لے کے نیچے پہنچیں تو سب مہمان آچکے تھے لان مہمانوں سے بھرا تھا منال کو لے جا کے آزر کے برابر میں بٹھا دیا۔
شزرا منال کو آزر کے برابر میں بٹھا رہی تھی تو اس وقت آزر کی نظریں شزرا کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں وہ چاہ کے بھی اپنی نظریں نہیں ہٹا پا رہے تھے شزرا آزر کہ نگاہیں خود پہ جمی محسوس کر سکتی تھی۔
وہ گھبراہٹ میں وہاں سے ہٹی اور تیزی سے اسٹیج سے اترنے لگی مگر اسی اثناء میں وہ کسی سے بری طرح سے ٹکرائی تھی مقابل نے اسے نرمی سے پکڑا تھا اس نے پلکیں اٹھا کے دیکھا تو برہان نے اسے گرنے سے بچایا ہوا تھا وہ فورا خود کو سنبھال کے سیدھی ہوئی۔
برہان کے چہرے پہ طنزیہ مسکراہٹ تھی وہ اسے نظر انداز کر کے وہاں سے جانے لگی مگر وہ دوبارہ اس کے راستے میں آگیا۔
"پھر کیا سوچا تم نے؟" برہان نے ایک دل جلانے والی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔
"کیا سوچنا ہے؟" شزرا نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔
"آزر کی شادی ہو رہی ہے" برہان نے بات کا رخ آزر کی طرف موڑا۔
"تو۔۔۔۔" شزرا نے اسی کے لہجے میں اسے جواب دیا جس پہ برہان کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔
"تو یہ روئی روئی سی آنکھیں بلاوجہ تو نہیں" اس نے سنجیدگی سے شزرا کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
"اگر کوئی ضروری بات نہیں کے تو مجھے بہت کام ہیں" شزرا نے اس وقت اسے نظر انداز کرنا ہے بہتر سمجھا اور وہاں سے چلی گئی۔
مایوں کی تقریب بخیر و عافیت نمٹ گئی تھی۔
کل بارات تھی اور صبح بہت کام تھے اب شزرا نے تمام سوچوں کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا تھا۔مگر سوچوں پہ کس کا بس ہے کسی نہ کسی روپ میں اس کے سامنے آ کھڑی ہوتیں بلاآخر رات تمام ہوئی تھی۔

___________________________________________________

وہ صبح اپنی ساتھ نئی ہنگامہ خیزیاں لے کہ آئی تھی آج سب کی زندگی بدلنے والی تھی شزرا اپنے حق سے دستبردار ہونے والی تھی جو ہر گز اس کے لئے آسان نہیں تھا مگر اب اسے اپنے دل کو پتھر کرنا آگیا تھا۔
آزر صبح سے ہی اپنے کمرے میں بند تھے انہوں نے باہر آکر کسی بھی کام کو دیکھنے کی زحمت نہیں کی اس وقت شاید وہ صرف اپنی ادھوری محبت کا ماتم کرنا چاہتے تھے مگر ان کے دل میں اس محبت کی جگہ شاید نفرت لے رہی تھی۔
رات میں تائی امی نے ان کی شیروانی ان کے روم میں پہنچائی تو وہ خاموشی سے اٹھ کے تیار ہونے چلے گئے۔

شوخ گلابی رنگ کے لہنگے میں بانوں جو کرل کئے اس وقت شزرا کوئی پری ہی لگ رہی تھی۔
شزرا منال کو لے کہ وینیو پہ پہنچی تو مہمان آنا شروع ہو چکے تھے شزرا منال کو لے کہ اندر چلی گئی کچھ دیر بعد نکاح کی رسم ہونا تھی۔
مولوی صاحب منال سے سائن کروانے آئے تو پل بھر کو شزرا کو اپنا وجود خالی ہوتا محسوس ہوا۔
نکاح کہ رسم کے بعد منال کو لا کے آزر کے برابر میں بٹھا دیا گیا سرخ رنگ کے شرارے ملبوس اس وقت اس پہ روپ برس رہا تھا شزرا اپنے لبوں پہ مسکان سجائے سب سے مل رہی تھی مگر بہت اندر کچھ ٹوٹ چکا تھا۔
برہان نے شزرا سے بات کرنی چاہی مگر شزرا اس وقت کسی قسم کی بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی اس نے اسے نظر انداز کرنا پہتر سمجھا۔
رخصتی کی رسم عافیت سے نمٹ گئی تھی اب سب گھر آکے مختلف رسمیں کر رہے تھے رسموں سے فارغ کو کر منال کو آزر کے روم میں پہنچا دیا گیا۔
رات دبے پاؤں گزرتی جا رہی تھی مگر آزر اپنے روم میں نہیں گئے تھے پتہ نہیں وہ کہا تھے۔سب گھر والے یہی سمجھ رہے تھے کہ وہ اپنے روم میں ہیں شزرا بھی یہی سمجھ رہی تھی۔
اس کا درد دل حد سے سوا ہوا تو وہ باہر لان میں ٹھنڈی ہوا میں آگئی اس نے اب تک کپڑے تبدیل نہیں کئے تھے وہ اب تک سکتے کی سی کیفیت میں تھی۔ 
وہ گلابوں کی کیاری کے سامنے آکھڑی ہوئی آنسو خود بخود پلکوں کی باڑھ توڑ کر چہرے پہ بہنے لگے۔
"بہت خوش ہو نہ مجھے برباد کر کے۔۔۔۔۔۔!!!" عقب سے آنے والی آواز نے شزرا کا دل مٹھی میں جکڑ لیا وہ فوراً اپنے آنسو صاف کر کے پلٹی مگر کچھ نہ بولی وہ جانتی تھی اگر اس نے کچھ کہا تو شاید آنسو اس سے بغاوت کر جائیں۔آزر سینے پہ ہاتھ باندھے اس کے سامنے کھڑے تھے آنکھیں لہو رنگ تھیں۔انہوں نے شزرا کی کلائی پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچا وہ ان کے سینے سے آلگی کانچ کی چوڑیاں ٹوٹ کے اس کی کلائی میں پیوست ہو گئیں مگر مقابل پہ آج کوئی اثر نہ ہوا درد کی شدت سے وہ کراہ اٹھی۔
ہاتھوں کے زخم ایک بار پھر ہرے ہوگئے۔
"آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟" شزرا نے انہیں وہاں موجود دیکھ کے پوچھا۔مگر ضبط کرنے کے باوجود اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔
"مجھے اس وقت تم سے شدید نفرت محسوس ہو رہی ہے" انہوں نے ایک ہاتھ سے اس کا چہرہ دبوچتے ہوئے کہا آزر کی سخت انگلیاں اس کے گال میں گڑی جا رہی تھیں اس نے خود کو چھڑانے کی کوشش کی مگر مقابل کی گرفت حد درجہ مضبوط تھی۔
"چھوڑیں مجھے درد ہو رہا ہے" اس نے روتے ہوئے کہا مگر آج اسکے کسی بھی آنسو کا آزر پہ اثر نہ ہوا۔
"اور جو اذیت تم نے مجھے دی ہے اسکا کیا" وہ دبی دبی آواز میں دھاڑے تھے اور اس کا دل سہم گیا۔
"آج کے بعد میں تم سے صرف اور صرف نفرت کروں گا میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا تمہیں دیکھتا ہوں نہ تو مجھے اپنا وجود ایک مذاق لگتا ہے نفرت ہوتی ہے خود سے" وہ جنونی کیفیت میں بول رہے تھے اور وہ برستی آنکھوں کے ساتھ انہیں دیکھ رہی تھی۔
بہت مشکل ہوتا ہے جس کی نظروں میں آپ ہمیشہ خود کے لئے پیار دیکھتے آئے ہوں اسی کی نظروں میں خود کے لئے نفرت دیکھنا اور آج وہ نفرت اسے آزر کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔
وہ یک ٹک ان کا چہرہ دیکھ رہی تھی جیسے اندر تک پڑھ لینے کا ارادہ ہو مگر وہاں اب نفرت کے سوا کچھ نہ تھا۔
شزرا کا روم روم جل اٹھا۔
اس کا دل چاہا وہ چینخ چینخ کر سب کو بتائے اس نے بھی اپنی محبت کی قربانی دی ہے کسی کو اسکا زخم کیوں نہیں دیکھا کیوں آزر صرف اپنی ہی محبت لئے بیٹھے ہیں۔
"چلی جاؤ میری زندگی سے جب بھی تمہیں دیکھوں گا میں زندہ نہیں رہ سکوں گا پل پل مروں گا" آزر کا لہجہ بل گیا تھا اب ان کے انداز میں جارحیت نہیں تھی غصہ نہیں تھا ایک تحمل تھا درخواست تھی۔
وہ سر جھکائے ہونٹ کچل رہی تھی بے نیازی کا چولا اوڑھے وہ خاموش تھی۔
آزر جا چکے تھے اسے چھوڑ کے وہ نہیں جانتی تھی وہ اندر گئے ہیں یا باہر اب وہ جاننا بھی نہیں چاہتی تھی ایک اندھیرا تھا جو اس کی آنکھوں کے سامنے تھا مگر اب سب واضح ہو گیا تھا۔
وہ اس کالی رات میں وہاں کھڑی ایک فیصلے پہ پہنچ چکی تھی ہاں اب اسے صرف اپنے بارے میں سوچنا تھا سب کو پیچھے چھوڑ کر صرف اب اپنا سوچنا تھا۔. 

To be continued…
Next tomorrow inshallah
اپنی قیمتی رائے کا اظہار ضرور کیجیئے گا۔
کیا ہوگا شزرا کا فیصلہ؟
کل کی صبح کتنے ہنگامے اپنے ساتھ لائے گی؟

کیا آزر سنبھال پائیں گے خود کو؟

Wehshat e ishq by Ramsha Mehnaz ||Episode#11

#وحشتِ عشق
#رمشاء مہناز
#قسط نمبر 11
(Don't copy without any permission)

وہ اسے وہیں چھوڑ کے غصے سے باہر کی طرف بڑھے شزرا جیسے ہوش کی دنیا میں واپس لوٹی اور لپک کے ان پیچھے گئی۔
"آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے" اس نے کمرے سے باہر جاتے آزر کا بازو سختی سے پکڑا آزر نے ایک قہر زدہ نظر اس پہ ڈالی جو رو رہی تھی۔
بے تحاشا رو رہی تھی۔
اس سے ہاتھ چھڑا کے باہر جانے لگے۔
"آزر آپ کو خدا کا واسطہ ہے ایسا نہیں کریں" وہ ان کا مضبوطی سے ہاتھ تھامے فرش پہ بیٹھتی چلی گئی آزر کے بڑھتے قدم رکے تھے انہوں نے حیرت سے اپنے قدموں میں بیٹھی سر جھکائے گے تحاشا روتی اس لڑکی کی طرف دیکھا جس میں ان کی جان بستی تھی اور آج وہ ان کے سامنے کیسے ٹوٹ کے ریزہ ریزہ ہو رہی تھی وہ سرد سی نگاہوں سے اسے دیکھتے رہے پھر خود بھی اس کے سامنے فرش پہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔
"تم کیا سمجھتی ہو کر بار اپنے آنسوؤں سے یا ضد کر کے اپنی بات منوا لو گی" انہوں نے اس کا چہرہ اوپر کرتے ہوئے اس کے آنسو اپنی پوروں پہ چنتے ہوئے کہا وہ امید سے ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔
"پلیز ایسا نہیں کریں میری آپی کو بہت دکھ ہوگا" وہ بولتے بولتے پھر رو پڑی اس کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں آزر چہرے پہ سرد سے تاثرات لئے اسے دیکھ رہے تھے۔
"جو دکھ مجھے ہو رہا ہے اس بارے میں سوچا کبھی تم نے؟" شزرا نے ان کی آنکھوں میں نمی پھیلتی دیکھی تھی وہ بے اختیار نظریں چرانے پہ مجبور ہوئی۔
"میری بات کا جواب دو۔۔۔۔۔میرے دکھ کا اندازہ ہے تمہیں؟" انہوں نے اپنے لہجے کو ہموار کرتے ہوئے کہا شزرا سر جھکائے خاموشی سے فرش کو تک رہی تھی آزر نے اسے افسوس سے دیکھا اور ایک جھٹکے سے وہاں سے کھڑے ہوئے انہیں غصے میں کھڑے ہوتا دیکھ کے شزرا ان کے سامنے آکھڑی ہوئی۔
"آزر پلیز میری بہن کے ساتھ ایسا نہیں کریں۔۔۔۔وہ مر جائیں گی۔۔۔۔آپ جو بولیں گے میں کروں گی میں وعدہ کر رہی ہوں" شزرا نے ان کے یخ بستہ ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا چہرے کے سرد تاثرات کے ساتھ ان کے ہاتھ بھی سرد تھے شزرا کو یہ سردی اپنی رگ رگ میں دوڑتی محسوس ہوئی آزر نے ایک نظر اس کے روئے روئے سے چہرے پہ ڈالی جو رونے کی شدت سے سرخ ہو رہا تھا پھر اپنے دل کو ٹٹولا وہ کیوں اس قدر کٹھور ہو رہے تھے اس کی یہ حالت دیکھ کے ان کے دل نے انہیں ملامت کی وہ ہر بار اس کے سامنے ہار جاتے تھے وہ اپنی تمام باتیں ان سے منوالیتی تھی اس بار بھی وہ منوا چکی تھی وہ تھک ہار کے جا کے صوفے پہ بیٹھ کہ اپنا اشتعال دبانے کی کوشش کرنے لگے۔
برہان کی زبان سے شزرا کا نام سن کے وہ اپنے آپ میں نہیں رہے تھے شزرا پہ کسی اور کا حق ہونے کے خیال نے ہی ان کی روح تک کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا تھا۔
شزرا ان کے سامنے زمین پہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور ان کے سرد ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لئے اس کی کلائیوں سے ہلکا ہلکا خون رس رہا تھا آزر کی سخت گرفت کی وجہ سے اس کی چوڑیاں ٹوٹ کے کلائی میں چبھ گئی تھیں مگر وہ اپنی ہر تکلیف سے بے نیاز تھی۔
"آپ مجھ سے وعدہ کریں" اس نے آزر کی سرخ آنکھوں میں جھانکتے نم لہجے میں کہا اس کا ٹوٹا بکھرا لہجہ اپنی الگ ہی کہانی بیان کر رہا تھا۔
"تمہارا ہاتھ" آزر نے تڑپ کے اس کے زخموں پہ اپنا ہاتھ رکھا اس نے ضبط سے نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبا لیا آنکھوں سے اشک رواں ہو گئے۔
"آپ آپی کو کبھی کوئی تکلیف نہیں دیں گے" اس نے ان کی بات نظر انداز کر کے کہا وہ کمال ضبط سے اپنی تکلیف چھپا گئی تھی۔
"میں کبھی جان کے ایسا نہیں کروں گا" آزر نے اسے نظریں چراتے ہوئے کہا اور اپنی جیب سے رومال نکال کے اس کے زخموں پہ ابھرا خون صاف کرنے لگے وہ ایک بات پھر تکلیف سے دو چار ہوئی وہ اس بار تکلیف کی وجہ نہیں جان پائی۔
"انجانے میں بھی نہیں" اس نے ضدی لہجے میں کہا آزر نے ایک نظر اسے دیکھا۔
اس کے زخموں پہ لگا خون صاف ہو چکا تھا وہ اب اس کے ہاتھ میں پہنی کانچ کی چوڑیاں اتارنے لگے۔
کیونکہ جب تک وہ یہ چوڑیاں پہنی رہتی اس کا زخم ہرا ہوتا رہتا۔
شزرا نے آزر کو اپنے ہاتھوں سے چوڑیاں اتارتے دیکھا وہ پل بھر کو ٹھٹکی تھی۔
آزر نے وہ وجہ ہی ختم کردی تھی جس کہ وجہ سے اسے زخم لگا تھا اور دوبارہ اس کا زخم ہرا ہوتا۔
لمحے کے ہزارویں حصے میں اس نے خود کو آزر کی زندگی سے دور لے جانا چاہا۔
وہ بھی تو ٹوٹ گئی تھی انہیں کانچ کی چوڑیوں کی طرح اور اب آزر کا زخم ہرا کر رہی تھی۔
اس نے کمرے میں اردگرد پھیلی کانچ کی چوڑیوں کی جانب نگاہ دوڑائی وہ سن سی ہوئی تھی ہر طرف ٹوٹیں ہوئی چوڑیاں بکھری تھیں جو اب بھی اسے تکلیف پہنچا سکتی تھیں۔
آزر اب اس کے ہاتھ پہ کوئی مرہم لگا رہے تھے اور خالی خالی نگاہوں سے بیٹھی انہیں تک رہی تھی۔
"تم بھی ایک وعدہ کرو" آزر کی سپاٹ سی آواز اسے سنائی دی۔
"جی" اس کے منہ سے صرف اتنا ہی نکل سکا۔
"تم صرف میری ہو کسی اور کا تم پہ کوئی حق نہیں ہے" سرد و سپاٹ لہجے میں بولتے ہوئے پتا نہیں وہ وعدہ لے رہے تھے یا اسے باور کرا رہے تھے۔
"وعدہ کرو" اس وقت وہ شزرا کو صحیح معنوں میں کھونے کے ڈر سے گزر رہے تھے۔
"لیکن آزر" شزرا نے کچھ بولنا چاہا۔

"ٹھیک ہے میں ابھی جا کے یہ منگنی ختم کردوں گا" انہوں نے سفاک لہجے میں کہا شزرا نے بے یقینی سے انہیں دیکھا یہ وہ آزر تو نہیں۔ تھے جن سے اس نے پیار کیا تھا یہ شخص تو کوئی اور ہی تھا اپنی محبت میں کر حد پار کردینے والا اس نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔

"ٹھیک ہے وعدہ" اس نے سر جھکائے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا۔

آزر نہیں جانتے تھے کہ وہ اب محبت میں خود غرض ہو چکے ہیں وہ سمجھ رہے تھے کہ اسے اس وعدے میں باندھ کے اسے ہمیشہ اپنے پاس رکھیں گے اسے کبھی خود سے دور نہیں جانے دیں گے اسے برہان سے دور کر لیں گے مگر یہ سب کی خام خیالی ثابت ہونے والی تھی کیونکہ آج تک قسمت پہ کسی کا زور نہیں چلا ہے۔
قسمت تو جب ناچ نچانے پہ آئے تو کٹھ پتلی بنا کے اپنی مرضی سے جہاں چاہے نچادے۔
ابھی آزر قسمت کی اس ستم ظریفی سے بے خبر تھے۔
"اپنا حلیہ درست کر کے نیچے آؤ" آزر نے اس کے گال پہ بہتے آنسو دیکھ کے نرمی سے کہا اور اٹھ کے چلے گئے وہ خاموشی سے انہیں جاتا دیکھتی رہی۔
شزرا نے ان کے جانے کے بعد آٹھ کے آئینے میں ایک نظر خود کو دیکھا پل بھر میں جیسے وہ اجڑ گئی تھی اسے اپنے چہرے کے نقوش مٹتے ہوئے محسوس ہوئے اس نے اپنا میک اپ ٹھیک کیا اپنے زخمی ہاتھوں کو دوپٹے کے نیچے چھپایا اور چہرے پہ ایک نرم سی مسکراہٹ سجا کے نیچے چلی گئی کوئی نہیں جان سکتا تھا کہ اس کے دل پہ کیا گزری ہے وہ سب کے بیچ ایک بار پھر ہنستی مسکراتی موجود تھی۔
وہاں موجود برہان اسے دیکھ کے الجھ سا گیا تھا کچھ تھا جو ان سب کی نظروں سے چھپایا جا رہا تھا۔
آزر جس طرح اسے گھسیٹ کے لے کہ گیا تھا وہ برہان کی نگاہوں سے چھپا نہ رہ سکا تھا۔
مگر وہ خاموش تھا اسی اثناء میں اس کی نظر شزرا کے دوپٹے میں سے جھلکتے اس کے ہاتھ پہ پڑی وہ پلکیں جھپکنا بھول گیا اس کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا شزرا کے ہاتھوں پہ جا بجا زخموں کے نشان تھے وہ تیزی سے شزرا کی طرف بڑھا۔
شزرا ایک کونے میں خاموش بیٹھی تھی وہ اس کے سامنے جا کے بیٹھ گیا اسے دیکھ کے شزرا یکدم گھبرا کے کھڑی ہوئی۔
"شزرا میری بات سنو" برہان نے نرمی سے کہا مگر شزرا کے ماتھے پہ چمکتے ٹھنڈے پسینے کے قطرے اس کی نگاہوں سے چھپے نہ رہ سکے مگر شزرا وہاں رکنا نہیں چاہتی تھی۔
"شزرا بس دو منٹ کے لئے بیٹھو" اس بار برہان نے سختی سے کہا وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بیٹھ گئی۔
شزرا کو اندازہ ہو گیا تھا کہ آزر کا یہ رویہ برہان کء ساتھ بات کرنے سے تھا مگر اب تو برہان نے اسے محفل میں مخاطب کیا تھا وہ نہیں جانتی تھی کہ آزر کب آپے سے باہر ہو جائیں مگر اس وقت آزر اسے کہیں نظر نہ آئے وہ جیسے زبردستی بیٹھ گئی۔
"یہ کیا ہوا کے تمہارے ہاتھوں پہ؟" برہان نے کسی لگی لپٹی کے بغیر اس کے ہاتھوں کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔
"کک۔۔۔کچھ نہیں" وہ اس اچانک افتاد سے گھبرا گئی۔
" یہ آزر نے کیا ہے؟" دوسرا سوال پہلے سے بھی زیادہ غیر متوقع تھا وہ اب صحیح معنوں میں ڈری تھی اس کی زبان نے اس کا ساتھ نہ دیا وہ بس بے بسی سے برہان کو دیکھ کے رہ گئی۔
"میں کچھ پوچھ رہا ہوں شزرا" اس بار برہان نے قدرے سختی سے کہا ابھی آزر کے رویے سے وہ ٹھیک طور پہ سنبھلی نہ تھی کہ اب برہان۔۔۔۔۔!!!!
"وہ میں گر گئی تھی" شزرا نے اس کی طرف دیکھے بغیر جھوٹ کا سہارا لیا وہ گہرا سانس کھینچ کے رہ گیا۔
"میں جانتا ہوں یہ سب آزر نے کیا ہے" برہان نے پورے وثوق سے کہا  شزرا کی آنکھوں سے موتی ٹوٹ کے گرنے لگے اس نے فوراً اردگرد دیکھا مگر سب اپنی ہی موج میں مگن تھے۔
"میں آپ کو بول رہی ہوں میں گر گئی تھی تو آپ یقین کیوں نہیں کر رہے" اس بار شزرا نے قدرے ترش لہجے میں کہا اور اٹھ کے وہاں سے چلی گئی مگر اس کا جیسے باہر آنے کو بیتاب تھا۔
تقریب ختم ہوئی تو شزرا نے سکھ کا سانس لیا اور فورا اپنے کمرے میں چلی گئی اسے کچھ دیر تنہا رہنا تھا آج اس کے اعصاب بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے تھے۔
آج آزر کا رویہ اسے بری طرح توڑ چکا تھا وہ اب بھی صدمے اور بے یقینی کی کیفیت میں گھری بیٹھی تھی پہلے آزر کا رویہ اور پھر برہان وہ جیسے اپنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں کھوتی جا رہی تھی۔
وہ اٹھ کے کپڑے چینج کرنے چلی گئی وہ چینج کر کے اور منہ ہاتھ دھو کے ہاہر آئی تو اس نے آزر کا اپنا منتظر پایا وہ خاموشی سے انہیں تکتی رہ گئی۔
" یہ میڈیسن لے کو دودھ کے ساتھ" آزر نے سائڈ ٹیبل پہ پہن کلر اور دودھ کا گلاس رکھتے ہوئے کہا اور اس کی طرف دیکھے بغیر اس کے روم سے چلے گئے۔
آزر نے اپنے روم میں آکے جیسے ڈھے سے گئے آج انہوں نے شزرا کو بہت تکلیف دی تھی وہ جانتے تھے مگر یہ اس تکلیف سے بہت کم تھی جو وہ سہہ رہے تھے ٹھنڈے پانی سے شاور مے کہ انہوں نے خود کو کافی حد تک ریلیکس کیا وہ بھی اعصابی طور پہ بے حد تھک چکے تھے بس اب سونا چاہتے تھے مگر نیند ہی آنکھوں سے جیسے روٹھ گئی تھی ان کی نظروں میں بار بار شزرا کے آنسو آکے ٹہر جاتے اور وہ بے چین ہو جاتے بالآخر نیند بھی ان پہ مہربان ہو ہی گئی۔

Wehshat e ishq by Ramsha Mehnaz ||Episode#10

#وحشتِ عشق
#رمشاء مہناز
#قسط نمبر 10
(Don't copy without any permission)

گاڑی اس قدر شدید جھٹکے کے ساتھ رکی کہ شزرا کا سر ڈیش بورڈ پہ لگنے والا تھا مگر اس سے پہلے ہی آزر نے اس کا بازو پکڑ اس اسے سیدھا کیا وہ اس اچانک افتاد سے گھبرا گئی تھی آنکھوں میں سراسیمیگی لئے وہ انہیں حیرت سے تک رہی تھی ماتھے پہ بل ڈالے وہ شدت ضبط سے اسے دیکھ رہے تھے۔
وہ غصے میں گاڑی سے اترے اور باہر جا کھڑے ہوئے وہ کسی بھی طرح خود کو اسے کچھ بھی کہنے یا غصہ کرنے سے روک رہے تھے وہ شاید ضبط کے آخری مراحل پہ تھے شزرا کار کا لاک کھول کے باہر آئی آزر اس کی طرف پشت کئے کھڑے تھے اس نے ڈرتے ڈرتے انہیں پکارا۔
"آزر۔۔۔۔۔۔۔۔!!" آواز میں لرزش تھی انہوں نے پلٹ کے دیکھا ان کی آنکھوں میں بے پناہ محبت اور تکلیف کے آثار تھے وہ جیسے اندر ہی اندر ریزہ ریزہ ہو چکے تھے۔
"کیوں کر رہی ہو تم میرے ساتھ ایسا؟" آزر نے شزرا کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اسے گاڑے کے شیشے کے ساتھ لگایا یکدم ہی بادل گرج کے برسے تھے وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے نفرت سے اسے دیکھ رہے تھے شزرا سہم گئی تھی۔
وہ انہیں صرف خود سے دور نہیں بلکہ شاید انہیں موت سے روشناس کروا رہی تھی آزر نے جانا کہ محبوب جدا ہو تو دل پہ کیا گزرتی ہے۔
ارد گرد گرتی بارش کی بوندیں دونوں کو بھگو گئیں تھیں بارش نے شزرا کا مان رکھ لیا تھا اس کے آنسو بوندوں میں جذب ہو گئے تھے مگر یہ اس کی خام خیالی تھی کہ آزر اس کے آنسو اس بارش میں نہیں دیکھ سکتے وہ دیکھ رہے تھے اور غور بھی کر رہے تھے۔
شدید بارش نے ہر منظر دھندلا کردیا تھا وہ اب ٹھنڈ سے کانپ رہی تھی اسے کانپتے دیکھ کے آزر ہوش کی دنیا میں لوٹے۔
"گاڑی میں بیٹھو"انہوں نے نرمی سے کہا اور اس کے لئے ڈور کھولا وہ سردی کی شدت سے کانپتے ہوئے اندر بیٹھ گئی آزر نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے ہیٹر چلادیا انہیں نہیں سمجھ آرہا تھا وہ کیسے ری ایکٹ کریں وہ کیسے شزرا کو خود سے دور جانے دیں وہ خود کو بے بس محسوس کر رہے تھے انہوں نے خود ہی کہا تھا وہ شزرا کی رائے کا احترام کریں گے پھر اب کیوں ان کا دل بغاوت کر رہا تھا وہ آج جس مقام پہ تھے شاید ہی انہوں نے کبھی اس بارے میں سوچا ہوگا وہ ان کے سامنے تھے مگر اس پہ کوئی حق نہیں تھا انہوں نے جھنجھلا کے کار اسٹارٹ کی دونوں کے بیچ خاموشی حائل تھی بہت کچھ کہتی کوئی خاموشی۔۔۔۔۔!!!
شزرا کو گاڑی میں ہی چھوڑ کر وہ ٹیلر کو شرٹ دے آئے  تھے اس نے خود ہی گھر پہنچانے کا کہہ دیا تھا انہوں نے واپس گاڑی گھر کی جانب موڑ لی گھر پہنچ کر شزرا سیدھے اپنے روم میں جا چکی تھی آزر بھی اپنے روم میں چلے گئے۔

____________________________________________________

منگنی کی تقریب لان میں رکھی گئی تھی پورے لان کو گلابی اور سفید پھولوں سے سجایا گیا تھا ایک طرف بنا اسٹیج خوبصورتی میں اپنی مثال تھا اسٹیج پہ بھی گلابی اور سفید پھولوں کا استعمال کیا گیا تھا اسٹیج کے بیچ میں شاہانہ طرز کے صوفے رکھے تھے گیٹ سے لان میں آنے والی روش کو انتہائی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا سجاوٹ اپنی مثال آپ تھی۔
منگنی کی تقریب میں مہمان آنا شروع ہو چکے تھے دلاور صاحب اور امین صاحب استقبال کے لئے گیٹ پہ کھڑے تھے آزر بھی تیار ہو کے نیچے آگئے بلیک ٹیکسڈو میں وہ مردانہ وجاہت کا مکمل شاہکار تھے سلیقے سے سیٹ ہوئے بال اور ہلکی بڑھی ہوئی شیو مگر سرخ آنکھوں کے ساتھ نیچے موجود تھے۔
منال بھی تیار ہو کے اپنی روم میں موجود تھی شہر کی مشہور بیوٹیشن سے اس کا میک اوور کرایا گیا تھا گلابی رنگ کے لہنگے چولی میں ملبوس وہ کوئی اپسرا ہی لگ رہی تھی اس پہ ہلکا ہلکا میک اپ اور نازک سی جیولری نے چار چاند لگا دیئے تھے وہ آئینے کے سامنے تیار ہو کے بیٹھی تھی جب شزرا اس کے روم میں داخل ہوئی اس نے ایک نظر سجی سنوری منال کو دیکھا جس کے چہرے پہ قوس قزح کے رنگ بکھرے تھے۔
شزرا آزر کی لائی ہوئی پیچ کلر کی میکسی میں ملبوس اپنے لمبے بالوں کو کرل کئے کمر پہ پھیلا رکھے تھے اس پہ ہلکا سا میک اپ کسی کو بھی دل تھامنے پہ مجبور کردیتا مگر آنکھیں روئی روئی سی تھیں۔
اور منال کی طرف بڑھی اور آئینے میں نظر آتے اس کے عکس کو دیکھ کے اس کے چہرے پہ مسکان ابھری۔
"بہت پیاری لگ رہی ہیں آپ" شزرا نے مسکراتے ہوئے اس کی تعریف کی منال نے ایک آسودہ سی نظر شزرا پہ ڈالی۔
"تم بھی بہت پیاری لگ رہی ہو" اس نے اپنی چھوٹی بہن کو دیکھا جو آج کسی اور روپ میں ہی اس کے سامنے تھی۔
"آپ خوش ہو نہ آپی؟" شزرا نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔
"بہت خوش ہوں" منال نے آئینے کے سامنے سے کھڑے ہوتے ہوئے کہا اور اس کے سامنے آکھڑی ہوئی۔
"پتا ہے شزرا میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا مجھے آزر اتنی آسانی سے مل جائیں گے" منال نے کھوئے کھوئے لہجے میں شزرا سے کہا اس کی بار سن کے شزرا کے دل میں ایک ہوک سی اٹھی یہ آسانی کوئی شزرا سے پوچھتا اس نے اپنے دل کو کیسے پتھر کیا تھا کیسے وہ اس راستے سے ہٹی تھی اس کے لئے تو کچھ بھی آسان نہیں تھا اس نے تو اپنی جان ماری تھی شزرا کا دل سنسنا اٹھا لب ہلنے سے انکاری تھے مگر اگلے ہی پل اس نے خود کو سنبھالا۔
"میری آپی ہیں ہی اتنی اچھی پھر کیسے کوئی انکار کر سکتا ہے" شزرا اس کا دوپٹہ درست کرتے ہوئے کہا ہاتھوں کی لرزش واضح تھی۔
"مگر مجھے کبھی کبھی لگتا ہے آزر کے دل میں میرے لئے کوئی جگہ نہیں" منال نے اپنی آنکھوں کی نمی چھپاتے ہوئے کہا شزرا کا دل کانپا تھا اس نے منال کی طرف دیکھا جس کے چہرے پہ چھائی آزردگی بہت کچھ کہہ رہی تھی اس نے آنکھیں جھپکا کے منال کو دیکھا ایک پل کے لئے وہ اجنبی ہوئی تھی۔زندگی اسے بے رحم معلوم ہوئی وہ اپنی ہی نظروں میں چور ہوئی تھی۔
"ایسی بات تو نہیں آپی" شزرا اس کے پاس سے ہٹ کر ڈریسنگ ٹیبل پہ بکھرا سامان سمیٹنے لگی جو شاید بکھرا ہوا نہیں تھا۔
"آزر کم گو ہیں تھوڑے سنجیدہ ہیں اس لئے شاید آپ کو لگا" شزرا نے آنکھوں میں آئی نمی آنکھیں جھپکا کے اپنے اندر انڈیلی۔ایک لمحے میں اسے اپنی یہ قربانی رائیگاں جاتی  محسوس ہوئی۔
کیا محبت اپنا روپ بدل رہی تھی اس نے تو آزر کا محبت بھرا روپ ہی دیکھا تھا اب یہ نفرت بھرا روپ بھی شاید وہ سمجھی اس کے لئے ہی تھا مگر یہاں وقت اپنی چال بدل رہا تھا اسے اپنا دل کانوں میں دھڑکتا محسوس ہوا۔
"منال آپی کو نیچے بلا رہے ہیں سب" سویرا نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا دونوں یکدم چپ ہوئی تھیں۔
"چلیں آپی" شزرا نے خود کو سنبھالتے ہوئے منال سے کہا۔
شزرا اور سویرا منال کو لے کہ نیچے آئیں تو لان مہمانوں سے بھرا تھا ہر طرف رنگ و بو کا سیلاب امڈ آیا تھا ہر چہرہ خوشی سے کھلا تھا سوائے دو نفوس کے جو شاید اپنی محبت کا ماتم منا رہے تھے۔
منال کو لا کے آزر کے برابر میں بٹھا دیا گیا آزر کے چہرے پہ سجی بیزاری کسی کی آنکھوں سے ڈھکی چھپی نہیں تھی آزر نے ایک  نظر شزرا کے سجے سنورے روپ کو دیکھا اس نے ان کا لایا ہوا جوڑا زیب تن کیا تھا وہ جانتے تھے شزرا اسے ضرور پہنے گی انہیں شزرا اپنے دل کے بہت قریب محسوس ہوئی۔
تائی امی نے آگے بڑھ کے آزر کے ہاتھوں میں منگنی کی انگوٹھی تھمائی آزر نے بے دلی سے منال کے ہاتھوں میں پہنادی برستے پھولوں میں منگنی کی  رسم ادا ہوئی۔
شزرا پھولوں کا تھال کے گھر کے اندر آئی تو اس کا سامنا برہان سے ہوا جو شاید اسی وقت باہر آرہا تھا۔
"کیسی ہو"برہان نے رک کر اس کے سجے سنورے سرتاپے کا جائزہ لیا۔
"ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں؟" شزرا نے چہرے پہ آئی لٹوں کو پیچھے کرتے ہوئے پوچھا۔
"بہت پیاری لگ رہی ہو" برہان نے جواب دینے کے بجائے اس کی تعریف کی شزرا نے ٹھٹھک کے اسے دیکھا مگر اخلاقیات نبھاتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا اور جانے لگی۔
"بات تو سنو" برہان نے اس کی راہ میں حائل ہوتے ہوئے کہا۔
"جی" شزرا نے اس کی طرف دیکھا برہان کچھ بولتا اس سے پہلے ہی آزر کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔
"شزرا کیا کر رہی ہو یہاں؟" آزر نے قریب آتے کاٹ دار نگاہوں سے شزرا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"وہ میں۔۔۔۔۔یہ پھول" شزرا نے گھبرا کے آزر کی طرف دیکھا جو سنجیدہ چہرہ لئے اسی جو دیکھ رہے تھے۔
"جاؤ رکھو" آزر نے اسے کہا شزرا فورا وہاں سے چلی گئی۔
آزر نے برہان جو دیکھا جو چہرے پہ مسکراہٹ لئے انہی کو دیکھ رہے تھے۔
"کیا سمجھوں میں اس سب سے" برہان نے آزر کی طرف دیکھتے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہا۔
"دور رہو شزرا سے" آزر نے انگلی اٹھا کر اسے وارن کیا۔
"کیوں دور رہوں؟" برہان نے بھی کاٹ دار لہجے میں کہا ایک پل کو آزر چپ ہوئے تھے۔
"شاید تم بھول رہے ہو تمہاری منگنی ہو چکی ہے تھوڑی دیر پہلے" برہان نے جیسے اسے یاد دہانی کروائی آزر نے تنفر سے اسے دیکھا 
" تو" ان کا یک لفظی جواب سن کے برہان کے ماتھے پہ بل پڑے۔
"تو یہ اب شزرا سے تم دور رہو" برہان نے قریب آکر ان کے کالر  سے نادیدہ گرد جھاڑی آزر کی مٹھیاں طیش سے بھینچ گئیں تھیں۔
"چند دنوں میں میرے پیرنٹس رشتہ لے کہ آجائیں گے شزرا کے لئے جو کرنا ہے کرلو" برہان نے طنزیہ کہا اور وہاں سے چلا گیا پیچھے آزر سنسناتے دماغ کے ساتھ اسے جاتا دیکھتے رہے غصے سے ان کی کنپٹی کی رگیں تن گئیں تھیں چہرہ سرخ ہو چکا تھا شزرا کے کسی کسی اور کا ہونے کا خیال ہی ان کے لئے جان لیوا تھا۔
کچھ دیر بعد شزرا واپس آتی دیکھائی دی وہ انہیں نظر انداز کر کے ان کے برابر سے گزری تو اس کا ہاتھ ان کے مضبوط شکنجے میں تھا آزر نے اس کا بازو سختی سے پکڑا اور اسے لے کہ اوپر کی طرف بڑھے شزرا ان سے اپنا ہاتھ چھڑواتی رہ گئی مگر وہ ان سنی کئے اسے لے کے اپنے روم میں آگئے اور اسے بیڈ پہ دھکا دیا۔
اب ایک پاؤں بیڈ پہ گھٹنے کے بل جھکے اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کی سخت انگلیوں میں دبوچا۔
"آپ۔۔۔۔۔!" شزرا کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے سیاہ کاجل اس کی آنکھوں سے بہہ رہا تھا ایسے جیسے اس کے بخت میں سیاہی بھر رہی تھی۔
"میں یہ منگنی ابھی ختم کر رہا ہوں" آزر نے طیش سے اسے جھٹکا دیتے ہوئے کہا یہ سن کے شزرا جیسے زمین کی گہرائیوں میں دفن ہوئی تھی۔