Wednesday, 28 August 2019

Kafiristan By Zarak Mir

کافرستان
زرک میر
اب ہم مزید دور نہیں رہ سکتے .شادی کیلئے مجھے پہلے مسلمان بننا ہوگا وہ بھی بن جائونگی 
لڑکی نے لڑکے کی بہائوں میں انگڑی لی
شادی کرینگے لیکن اس کے لئے تمہیں کچھ نہیں بننا پڑیگا لڑکے نے اطمینان سے کہا
تو پھر کیا کرنا ہوگا. اب تک تو یہی ہوتا رہا ہے .روپا کیساتھ اکبر نے پیار کیا . روپا کو شادی کیلئے مسلمان بننا پڑا . پائل کو بھی مسلمان بننا پڑا میں بھی بن جائونگی 
تمہیں یہ سب نہیں کرنا پڑیگا...لڑکے کے جواب نے پھر لڑکی کو حیران کر دیا 
تو پھر مجھے کیا کرنا ہوگا.
میں نے تم سے عشق کیا ہے.اورعشق مسلمان یا ہندو نہیں ہوتا .اگر میں مذہبی ہوتا تو مجھے تم سے عشق نہیں. ہوتا.مجھے تم میں بے حیائی نظر آتی… تم سے گن آتی… بو آتی …تمہیں بخال(ہندو) کہہ کر بھاگ جاتا 
تو پھر کیا کرینگے .لڑکی نے حیرت سے پوچھا 
نہ تم مسلمان بنوگی نہ میں ہندو 
تو پھر ہم شادی کیسے کرینگے .کہاں رہیں گے .یہاں لوگ کیسے رہنے دینگے ہمیں 
مجھے معلوم ہے عشق کا مذہب سے تعلق نہیں .نہ ہم جنت جائیں گے نہ ہی سورگ.. تم ہی میری حور ہو.
تو پھر ہم کیا کہلائیں گے. لڑکی کی آنکھیں حیرت سے چمک گئیں
عشق کے بعد ہم نہ مسلمان رہے نہ ہندو…عشق کفر ہے …ہم نے کفر کیا ہے …ہم کافر بن گئے …
کافر ؟ تو اب ہم کہاں رہیں گے.
ہم کافرستان میں رہیں گے 
یہ کہاں ہے … 
یہاں سے دور بہت دور
دونوں قریب ہوگئے چاند شباب پر تھا… 

Tuesday, 27 August 2019

Siahkari By Zarak Mir

سیاہ کاری 
زرک میر
یہ شہر وطن کا مرکزی شہر کہلاتا ہے ۔ شہر میں قلعہ قائم ہے جہاں میروں کی حکومت قائم ہے ۔ قلعے کے شمال اور مشرق میں باقی شہر آباد ہے ۔شہر کیا ہے ایک تاریخ کادھارا ہے۔ ایک تہذیب کا گہوراہ ہے۔ مختلف قبائل آباد ہیں۔ ایک بڑی نہر (جو ) شہر کی طرف آتی تھی جس سے پینے کے پانی کے علاﺅہ فصلیں کاشت کی جاتی تھیں ۔اس شہر میں لوگوں کی اکثریت کسی نہ کسی طرح کاشتکاری سے منسلک تھی تب دووقت کے کھانے کے لالے اس قدر نہ تھے ۔لوگ پکے سماجی بندھن میں بندھے ہوئے تھے اور لوگ ایسے رسم ورواج کے سختی سے پابند تھے ۔سب لوگ ان رسم ورواج کو اپنے لئے مہان سمجھتے تھے ۔ شادی بیاہ میں نسلوں کی پرکھ ، دوستیوں میں اقدار کی جانچ ،علاقوں کی تفریق لازمی ہوتی ہے۔ایسے معاشرے میں بادشاہوں سرداروں اور امراءکا تعین اور مرکزیت ضروری ہوتی ہے ۔ اس شہر میں بھی میروں کی حکومت تھی قلعہ کے مشرق میں میروں کی ایک بڑی حویلی ہے اور اس حویلی کے اندر عمارتیں قائم ہیں جن میں وہ اہل وعیال کیساتھ رہتے ہیں۔جن کے ہاں بھی یہی نصیحت ملتی تھی کہ ہم عزت کیلئے جیتے اور عزت کیلئے مرتے ہیں اور ہمارا قبائلی نظام ہماری عزتوں کا محافظ ہے۔ قلعہ کے ساتھ ہی ایک بہت بڑی مسجد قائم ہے ۔مسجد کے مولوی غفور کی میروں کے ہاں بڑی عزت تھی جو خود بھی سماج کے رسم ورواج اور قبائلی روایات کا امین تھا ۔ ان کا خطبہ شریعت اور قبائلیت کے حسین امتزاج پر محیط ہوتاتھا۔
اس علاقے میں لوگ غیرت کے لئے جیتے تھے اور مرتے تھے خود ان کی زندگی کا مقصد یہی تھا ۔جب بھی مشکل پیش آتی تو یہ اپنی غیرت کے سوغند کو بارباردہرا کر اپنی بیداری کا سامان پیدا کرتے ہیں ۔یوں کہیئے کہ ان کے ہاں عزت کے ان کے اپنے معیار تھے ۔اور غیرت کا معیار ننگ پر قائم تھاان کے ہاں بھوک اور افلاس پر غیرت کو ترجیح تھی اور یہ موت کو قبول کرتے لیکن غیرت اورننگ پر کوئی بات برداشت نہیں کرتے ۔جی ہاں ان کے ہاں سیاہ کاری(مﺅن کننگ) کی روایت قائم تھی ۔ کوئی عورت اورمرد آنکھیں چار کرتے تو قتل ہوتے ۔اس قتل کو جائز قراردیاگیاتھا ۔اورپھر اس سے آگے یہ روایت کے سیا ہ کاری پر قتل ہوئی عورت یا مرد کی کوئی شان باقی نہ رہتی۔ ان کی نہ کوئی نماز جنازنہ کوئی قبرہوتی ہے۔دونوں کی لاشیں پہاڑ کی کھائی یا کسی کھڈے میں پھینک دی جاتیں ۔ لوگ پیچھے مڑکربھی نہیں دیکھتے ۔ان کے ماں باپ بہن بھائی اولادیں بھی ان کے قتل کو جائز قراردےتے اور ان کو پیچھے مڑکر بھی نہیں دیکھتے ۔یہ روایت بہت پکی تھی ۔اس قدر پکی کہ کوئی سال کسی ایسے واقعہ سے خالی نہ جاتا ۔اگر کوئی اپنوں کی لاشوں کیساتھ زیادہ سے زیادہ ہمدردی جتاتا تو وہ اس پر زیادہ مٹی ڈال کر اس کو ڈھکنے کی کوشش کرتا لیکن اس کی نوبت ہی نہیں آتی کوئی ایساکرکے اپنے سربے غیرتی کا الزام سہنا نہیں چاہتا ۔یہ ایک گمنام قبرستان بن چکاتھا جو علاقے کے شمال میں پہاڑ کی کھائی کے نیچے قائم تھاکوئی جوڑاسیاہ کاری( مﺅن مننگ) کے عمل سے دوچار ہوتا تو انہیں لاشیں اسی کھائی سے گرائی جاتیں اور بس قصہ ختم ۔ لیکن انسان اپنی سرشت کے سامنے بے بس ہے ، ہجوم میں آکر تو سب ان لاشوں کو کھائی سے پھینک کر جاتے لیکن کچھ نوخیز نوجوان جن کوسیاہ کاری کے نام پر قتل پر زیادہ تجسس ہوتا تھا کیونکہ ان کیلئے مرد اور عورت کا ملاپ ایک نیا جذبہ تھا جس پر وہ ایسے قتل ہوتا دیکھ کر اپنے اندر سیکس کی انگڑائی لئے اس جذبے کو دبانے پر مجبورتو ہوتے لیکن پھر چھپ کر لاشیں دیکھنے نکل آتے یا کچھ ایسا طبقہ بھی تھا جو روایات کے اس چکر میں یوں بھی نہ پڑتا کہ وہ سماج کا انتہائی غیر موثر لوگوں پرمشتمل ہوتا جو عزت کی دوڑ میں شریک ہی نہیں تھے ۔ سیاہ کاروں کی لاشیں گرائی جاتیں ،تو عزت داروں کا بوجھ ہلکا ہوجاتا کیونکہ سماج میںعزت دار ہونے کیلئے یہ خراج لازمی امر تھی ۔اگر کوئی اپنے پیارے پر گولی نہیں چلاسکتا ہو تو دوسرے اس کا کام آسان کردیتے لیکن اس کی نوبت بہت کم آتی کہ عزت کے ساتھ رہنے کیلئے یہ قدم اٹھانا لازمی امر تھا یہ ایسے معاشروں کا لازمی امر ہوتا ہے کہ ان میں ایسی بغاوتیں ہوتی رہتی ہیں ۔ اس بغاوت کے نرغے میں کچھ ایسے بھی آتے جو کسی بغض ا ور عداوت کی بناءپر اس رسم کے بھینٹ چڑھ جاتے ۔
میروں کی حویلی میں میر زادیاں یوں تو کسی ایسی عزت کے معاملے سے دوچار نہ تھیں کہ ان کا پلوکو ئی دیکھ ہی نہیں سکتا تھاجہاں بڑی بڑی دیواروں کے پس پردہ رہنے والیوں پر کسی غیر کی نظر کیسے پڑ سکتی تھی تب ہی میروں کی عزت محفوظ تھی ۔ ان میرزادیوں کی شادیاں اپنوں میں ہی ہوتیں یا پھر ہمسائیہ شہروں اور وطن کے بڑے بڑے اپنے جیسے میروں کے گھروں میں بہائی جاتی تھیں ۔بڑی بڑی دیواروں کے اندر ان میرزادیوں کو ہر آسائش حاصل تھی ۔یوں یہ میر کہلاتے تھے یونہی میر کہلوانا آسان تو نہ تھا اور عزت کے تحفظ میں کامیابی ہی میر کہلانے کا استحقاق بنتا تھا ۔شہرکے دوسرے لوگوں کی عزتوں کے فیصلے یہ میر کرتے تب یہ میر جب تک اپنی عزتوں کو تحفظ کرنے کا اہل ہوتے تو دوسرے ان کو اپنی عزتوں کا فیصلہ کرنے کا اختیاردیتے ۔ میرزادیاںشہر کے دوسرے لوگوں سے میل ملاپ نہیں رکھتےں ۔ کسی کے خوشی ور غم میں کسی طور شریک نہیں ہوتی تھیں لوگوں نے بھی کبھی تقاضہ نہیں کیا۔ تب ان کی آنکھیں بھی یہاں شہر میں کسی سے چار نہ ہوپاتی تھیں اور نہ ہی غیرت کا کوئی معاملہ بنتا۔ان میرزادیوں کے بارے میں معلومات کا واحد ذریعہ ایک ہی تھا اور وہ ذریعہ تھا حویلی میں کام کرنے والی مائیاں۔ تب شہر والوں کو ان مائیوں کے ذریعے ہی معلوم پڑتا تھا کہ میر ولی داد کی کتنی بیٹیاں ہیں ؟ میر بی برگ کی کتنی بیویاں اور بچے ہیں ؟اور میر ہزار کی منگیتر کتنی خوبصورت ہے ۔یہ بہت نازک معاملہ تھا ۔یہ راز باہر کسی کو پہنچانا بہت خطرناک تھا ملکی راز جیسا ۔ کام والی کسی مائی سے کوئی تجسس کا مارا نوجوان پوچھ بھی لیتا تو مائی کسی اور کو نہ بتانے کی ہزار قسمیں لیتی تب کہتی کہ میر ولی داد کی بڑی بیٹی گوہرناز بہت خوبصورت اور دلکش ہے ۔ بی برگ کی چھوٹی بیٹی سمو تو پری ہے پری۔سمو کے بال کٹے ہوئے ہیں اور وہ گھر میں بغیر دوپٹے کے گھومتی ہے تو اس کے بال ہواﺅں میں لہراتے رہتے ہیں ۔بڑے شہر سے اپنے لئے کپڑے لاتی ہے جسم سے چپکے ہوئے ان کپڑوں پر کشیدہ کاری نہیں ہوتی ۔بالکل لڑکا معلوم ہوتا ہے اور میرشیرجان کی نئی نویلی دلہن تو حور جیسی ہے ۔ ایسی زیورات پہنتی ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں ایسے زیورات نہیں دیکھے ۔رنگ برنگ کے کپڑوں کی الماریاں بھری پڑی ہیں ۔ یہ میر اور میرزادیاں دوسرے شہر کے میروں کے گھر مہمان بن کرجاتے ہیں اور وہ یہاں آکر مہمان بنتے ہیں۔ایک دوسرے سے پردہ تک نہیں کرتے ۔ان کے بڑے لڑکے بڑی لڑکیوں سے یوں کھیلتے ہیں کہ ہمارے بچے آپس میں کھیلنے سے شرما جائیں ۔اللہ نے دولت عزت اور شہرت کیساتھ ساتھ خوبصورتی بھی ان بادشاہ لوگوں کو ہی عطاءکی ہے۔ ہزار قسمیں لینے والی مائی منہ میں رس بھر بھر کے میر زادیوں کی خوبصورتی کی تعریفیں کرتیں اور سننے والے کو مزید تجسس اور حسرت میں ڈوبتے دیکھ کر مزید کچھ بتانے کا تاثر دیکھ کر چھپ ہوجاتی جب منت سماجت بڑھ جاتی تو پھر سے کچھ تعریفیں کرکے اپنی اہمیت جتاتی ۔ لوگ یہ سن کر حسرت کرتے کہ یا خدایا حویلی کی ان میر زادیوں کو جی بھر کے دیکھنے کا موقع کب ملے گا۔یہ حور ہیں یا پری جو ایسی ہیں ۔عجیب دستور ہے کہ ایک شہر میں ایک ساتھ رہتے ہیں لیکن ہم انہیں نظربھر دیکھنے سے بھی محروم ہیں۔گاﺅں کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاںیہ سوچ کر سرد آہیں بھرتیں۔ نوخیز نوجوان جب کسی مائی سے ”حویلی “ کے اندر کی باتیں سنتیں تو وہ مچل اٹھتے ،کچھ نوجوان میروں کے اردگرد گھومتے رہتے کہ کہیں حویلی کے اندر کام مل جائے لیکن وہاں کام کرنے کاشرف بھی ان لوگوں کو حاصل تھا جو نسل درنسل حویلی میں باپ داداﺅں سے کام کرتے آئے ہیں ۔
زبیر ان خوش قسمت نوجوانوں میں سے تھا جو اپنے باپ کے بعد حویلی میں کام کرنے کی اجازت پاچکاتھا۔
میرزادیاں یونہی حویلی میں رہیں کہانی پریوں کی طرح جو علاقے والوں کیلئے پریاں ہی تھیں جو تھیں بھی اور نہیں بھی ۔ایک طرف میروں کے ہاں تو عزت بڑی بڑی دیواروں کے اندر محفوظ تھی اور پھر میرزادیوں کی طرف دیکھنے کی جرات بھی کون کرسکتا تھا دوسری طرف عام لوگ جواس حویلی سے باہر نسبتا پست قد چاردیواریوں میں رہ رہے تھے۔ مقابلہ سخت تھا گویا انہیں بے ہتھیار ہوکر بے غیرتی جیسے ان دیکھے دشمن کا مقابلہ کرناتھا اور ان دیکھے عزت کی رکھوالی کرنا تھی ۔عجب منظرتھا اور آج بھی ہے کہ آسائش اور وسائل میں زمین آسمان کا فرق دوسری طرف عزتوں کا مقابلہ برابر۔ جب ایسے سماج میں عزت کی بالادستی کے لئے عورت کو استثنیٰ نہیں تو مرد بھی اس استثنیٰ سے قطعی مبرا نہیں ۔تب جب عورتیں اپنے مردوں کو جنگوں میں عزت کماتے ہوئے کٹ مرتے دیکھتی ہیں تو اپنے قتل پر وہ بین بھی نہیں کرسکتےںگویا جہاں قربانی کا پیمانہ برابر ہو تو کیا مرد کیا عورت سب کا خراج ضروری ہے ایسی روایات پر بغاوت بہت دیر بعد ہوتی ہے کہ سیاہ کاری میں بھی عورت کیساتھ ایک مرد قتل ہوتا ہے۔
اب گاﺅں کا واحد نوجوان زبیر ہی حویلی میں کام کرنے لگا تھا جوگاﺅں کا خوش قسمت نوجوان تھا وہ بھی بچپن سے اپنے باپ کیساتھ حویلی میں کام کرتا رہا ہے تو اب بھی اسے حویلی میں کام کرنے کی اجازت تھی ۔یہ اس سماج کے اعتماد کا معیار تھا کہ اگر کوئی گھر میں کام کرے پلے بڑے تو اس سے پردہ کیسا ؟ لیکن انسان کے بنائے ہوئے اصول فطری اصولوں کے سامنے ڈھیر ہوجاتے ہیں ۔زبیر کی دوآنکھیں حویلی میں چار ہونے کیلئے کافی تھیں ۔سمو کھلے بالوں کے ساتھ جب حویلی میں گھومتی تھی تو زبیر کی آنکھیں پٹی کی پٹی رہ جاتیں ۔زبیر اسے دیکھتے ہی دنگ رہ جاتا ۔دونوں کی آنکھیں جب چار ہوتیں توعشق کی قدرت اپنی وحی ان پر نازل کردیتی۔ یہ ایک بغاوت کی ابتداءتھی جہاں حویلی کے اندر سے حویلی کی شان میں چھید ہونے جارہاتھا ۔ایک طرف سمو اپنی شان وشوکت کو خاطر میں لاکر نظریں ہٹا دیتی تو زبیر اپنی اوقات کا خیال کرتا ۔ جیسے جیسے یہ ایک دوسرے کو نظرانداز کرنے کی کوشش کرتے ویسے ویسے آنکھوں کا پیغام انہیں ستانے لگتا ۔سمو نے اپنی جگہ اور زبیر نے اپنی جگہ سماج کا بن کر سوچا لیکن ان کے درمیان جو اصول کام کرگیاتھا ان کے اندر سماج کے اصولوں کو بالائے طاق رکھنے کی طاقت پیدا کردی تھی ۔بالآخر ایک دن دونوں حویلی کے کونے میں قائم اصطبل میں ملے۔ آنکھیں چار ہوئیں ، دونوں ایک دوسرے کے پاس آنے لگے،سمو کب زبیر کی باہوں میں آگئی اسے پتہ نہ چل سکا۔دونوں نے ایک دوسرے کو سمیٹ لیایوں جیسے ایک جسم بننے جارہے ہوں۔محبت کی دیوی کی پوجا ہونے لگی تھی ۔پھولوں کی بارش ہونے لگی تھی ۔زمین آسمان کے درمیان لامتناہی فاصلے طے ہونے لگا تھا ۔
اب یہ پوجا روز ہونے لگی تھی ۔ حویلی کی نظریں گاﺅں کے ایک ایک گھر اور ایک ایک فرد پر جمی ہوئی تھیں بلا خود حویلی کے اندر ایسا بے غیرتی کاکام کیسے چھپ سکتا تھا۔ ایک دن سمو اور زبیر باہوں میں بائیں ڈالے اصطبل کے کونے میں سرگوشی کررہے تھے کہ میر ولی داد کے بیٹے میرعبدل نے انہیں یوں دیکھ لیا ۔یہ ایک قابل اعتراض عمل تھا ۔ غیرت جاگ گئی۔ اشتعال سے میرعبدل کی آنکھوں سے انگارے پھوٹنے لگے تھے۔ کمر بند سے پستول نکال لیا۔ایک فائر دوفائر تین اورپھر چار فائر۔ دو محبت سے مغمور جوان جسموں سے گرم خون کے فوارے پھوٹ پڑے پورا حویلی امڈ آیا ۔گرم خون جسم کی رگوں سے نکل کر بہنے لگا ۔گاﺅں کے لوگ حویلی کے دروازے پر جمع ہوگئے ۔تھوڑی دیر میں ہی عقدہ کھلا کہ حویلی میں سیاہ کار ی ہوئی ہے اور اپنے انجام کو بھی پہنچی۔ بے غیرتی پر غیرت غالب آچکا تھا ۔گاﺅں کے لوگوں کیلئے زبیر کی موت سے زیادہ حویلی کی میر زادی سمو کی سیاہ کاری کی موت زیادہ دلچسپ اور حیران کن خبر تھی ۔
میر عبدل اس دہرے قتل کو چھپا سکتا تھا نہ بڑے میر‘میر ولی داد حویلی پر ایسا دھبہ دیکھ سکتا تھا ۔ وہ بھی قتل کرنے کے بعد ہقہ بقہ رہ گیا۔ حویلی کی میرزادی کی عام نوجوان سے سیاہ کاری پر حویلی ہل گئی تھی ۔ حویلی میں مٹی اڑنے لگی تھی ۔سیاہ کار اپنے آشنا کیساتھ مارا جاچکاتھا ۔گاﺅں والے میروں کا کام آسان کرنے لگے تھے کیونکہ دستور کے مطابق یہ عین درست عمل تھاکہ نہ غسل نہ کفن نہ قبر۔ ان سیاہ کاروں کا مزید سایہ غیرت کی دیواروں سے قائم حویلی کیلئے کسی طرح سے بھی نیک شگون نہیں تھا۔ میر ہکا بکا رہ گئے تھے۔ لوگوں نے دونوں لاشیں اٹھائیں ،نہ غسل نہ کفن نہ جنازہ نہ قبر۔ ایک ہجوم سے بن گیا۔ ہجوم میں ایسے نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود تھی جو غیرت مندی کے احساس سے زیادہ سمو کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے ہولئے تھے ۔میرولی داد اور میر بی برگسمیت میر خاندان کوکچھ سمجھ نہیں آرہاتھا کہ وہ اب کیاکریں ۔لوگ لاشیں اٹھانے لگے تھے ۔ یہ داستان کہ حویلی میں بھی سیاہ کاری ہوئی یہ حویلی اور میروں کے شان کے خلاف تھی ، میربی برگ کے ذہن میں خیالات کا مسلسل ایک بہاﺅ بہہ رہاتھا وہ اس عمل کو ہضم نہیں کررپارہا تھا ۔یہ صدمہ ان کیلئے ناقابل برداشت تھاتب آنا فانا ان کے ذہن میں آیاکہ ان کے والد(بلا میر) کو جب بھی کسی ایسے مسئلے میں مشکل پیش آتی تھی تو وہ مولوی سےمدد مانگتے تو وہ اس کا کوئی نہ کوئی مذہبی توجیح نکال لاتے تب کام چل جاتا۔ میر بی برگ بھاگتا ہوامولوی غفور کے گھر کی جانب جانے لگا ۔یہاں ہجوم بھی لاشیں اٹھا کر حویلی سے نکلاتھا کہ تھوڑی ہی دیر میں مولوی غفور کیساتھ ہجوم کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا میر بی برگ اس کے پیچھے پیچھے تیز قدموں کیساتھ آیا ۔یہ دیکھ کر ہجوم رک گیا ۔مولوی غفور کے ہاتھ میں رومال میں لپٹی ایک کتاب تھی ۔اس کا چہرہ سرخ تھا اور بال کھلے ہوئے تھے وہ انتہائی جذباتی لگ رہا تھا ۔
مولوی نے فورا کتاب لوگوں کے سامنے رکھتے ہوئے ہوئے کہا
لوگوں تمہیں قسم ہے کہ اگر اس کتاب کو پھلانگ کر ایک قدم بھی آگے بڑھایا، یہ کتاب عظیم ہے یا ہمارے قبائلی روایات؟آج اگر تم لوگوں نے اپنی من مانی کی تو اللہ کے قہر سے تم لوگوں کو کوئی نہیں بچا سکے گا۔پہلے اسے سیاہ کاری ثابت تو کرو پھر جو چاہے کرو۔ کیا کوئی اس قتل کو شریعت کے مطابق سیاہ کار ثابت کرسکتا ہے ؟
اے جاہلوں تمہیں پتہ ہے کہ شریعت میں سیاہ کاری کیلئے چار گواہوں کی ضرورت ہے ۔لوگ یہ سنتے ہی دھنگ رہ گئے ۔
مولوی کا حوصلہ بڑھ گیا اور وہ مزید پرجوش انداز میں کہنے لگا 
جوجو اس قتل کو سیاہ کاری ثابت کرنا چاہتا ہے وہ گواہی دینے کیلئے سامنے آئے ۔
یہ سن کر لوگوں نے صورتحال بھانپ لی کہ ان سے کچھ غیر شرعی عمل ہواکہ مولوی آپے سے باہر ہوگئے ہیں ۔انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھ کر لاشیں کندھوں سے اتار کر رکھ دیا اور پیچھے ہٹنے لگے 
مولوی نے اپنی بات جاری رکھی 
اللہ کے حکم سے روگردانی کرو گے تو تباہ ہوجاﺅ گے۔ہمارے ان فرسودہ قبائلی روایات نے آج تک ہمیں کیا دیا سوائے قتل وغارت گری کے ۔ قبائلی روایات جہالت کے سواکچھ نہیں ،یہ شریعت سے متصادم ہیں ۔ شریعت کی دوری کی وجہ سے ہم پرآفت نازل ہورہے ہیں ۔یہ قبائلی نظام اسلام سے پہلے کے دور جہالت کا دورہے ۔ خدارا فساد کا راستہ چھوڑو اور لوگوں کی زندگیوں سے یوں کھیلنا بند کردو ۔جس نے بھی ان کو قتل کیا ہے وہ چار گواہ لائے تب ان کو سیاہ کار ماناجائے گا ورنہ اس شہر کو اللہ کی قہر سے کوئی نہیں بچا سکے گا ۔ 
اللہ کے قہر کی باتیں اس شدومد سے سن کر لوگوں پر سکتا طاری ہوگیاتھا ۔کتاب کو پھلانگ کر بھلا کوئی کیسے آگے بڑھ سکتا تھالہذا لوگ مولوی کے اگلے شریعی حکم کے منتظر ہوگئے ۔
مولوی بھانپ گیا کہ اس کی باتیں اثر کر گئی ہیں 
فیصلہ کرو کہ تباہی کا راستہ اپناﺅ گے یا شریعت کا ۔اگر کسی کو شریعت کی پرواہ نہیں تو لاشوں کو جاکر کھائی سے گرا کر آﺅ ورنہ لاشوں کو حویلی کی جانب واپس لے چلو ۔
اگر حویلی کے پہنچنے تک کسی کے پاس چار گواہ ہوں تو وہ سامنے آئے رونہ یہ بے گناہ ہیں ۔مولوی نے حکم سناد یا
لوگوں نے شریعت کی باتیں سن کر پھر سے لاشیں کندھوں پر اٹھائیں اور حویلی کی جانب جانے لگے 
لوگوں نے لاشیں تو اٹھائیں لیکن انہیں کچھ عجیب سالگا ۔وہ مطمئن نہ ہوئے اورہجوم میں شامل لوگوں کی آپس میں کسر پسر شروع ہوگئی 
آج پتہ چلا کہ سیاہ کاری کیلئے چار گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے ‘لالہ شیر خان نے اپنی تصحیح کرنا چاہی 
تو پھر نبل کی جوان سال بیٹی کو مولوی کے گھر کے پاس سیاہ کارکیاگیا مولوی نے چار گواہوں کی بات کیوں نہیں کی؟ نوجوان شاکر نے اس کو دوٹوک جواب دیا 
اور صالو کی بیوی کو سندھ سے آئے اس کے رشتہ دار کیساتھ سیاہ کار کرکے ماراگیا تو مولوی بھی موجودتھا اس وقت مولوی نے شریعت کی بات کیوںنہیں کی ؟نوجوان فاروق نے شاکر کی تصدیق کی 
شیرو کی بہن کو ولو نے گزگکے ایک شوہان کیساتھ سیاہ کار کیا،سب جانتے ہیں کہ اس نے ایسا رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے کیا ،مولوی نے وہاں جاکر خود اسے بغیر چار گواہواں کے سیاہ کارقراردیاتھا۔ سفر خان نے بھی ایسا ہی سوال داغ دیا 
مولوی خود روز ہمارے قبائلی روایات کو شریعت کے عین مطابق قرار دیتے تھے اور آج ؟ ماما کلیم نے بھی مولوی کے فیصلے پر حیرانگی کا اظہار کیا 
ٓان باتوں کو سن کر ہجوم میں شامل مفلر سے منہ ڈھکے نسبتا دبلے پتلے شخص نے جملہ کسا 
میروں کے چرب نوالوں نے آج کام کردکھایا۔
مولوی ہجوم کے سامنے حویلی کی جانب چلتے ہوئے زور زور سے کہہ رہا تھا 
کلمہ شہادت ۔۔۔۔۔ کلمہ شہادت ۔۔۔۔۔ کلمہ شہادت

( تمام کرداروں کے نام فرضی ہیں ۔ کہانی محض اظہاررائے کی بنیاد پر لکھی گئی ہے )

Monday, 26 August 2019

Pehla Dhanda By Zarak Mir

پہلا دھندا
زرک میر
وہ ابھی چھوٹی تھی لیکن تھی تو عورت ذات . وہ ماں جیسا بننا چاہتی تھی یا پھر یوں کہیئے کہ ماں جیسا کرنا چاہتی تھی اور ماں کوٹے پر بیٹھتی تھی .ایک کرایہ کا دوکمرے والا فلیٹ .ماں شنو اور بیٹی روشنی .پہلے پہل ایک دلال کے ہاں کام ملا تو دلال کے گاہک کم ' چرسی بھنگی اور پان منہ میں ٹھونسے دوست زیادہ تھے .روز مفت کا ایک دانت کترتا بدبودار آدمی اپنی تھکن اتار کر چلا جاتا. دلال کی فرمائش کہ چوں چرا بھی نہیں کرنی, میرے دوست ہیں بہت دور سے آتے ہیں .پھر جب خود دلال پر گرمی چڑھتی تو اس کی الگ فرمائشیں.ہمت کرکے ریلوے اسٹیشن کے عقب میں ایک پرانی بلڈنگ میں ایک جگہ ملی . لیکن یہاں پولیس تھانیدار کی تھانیداری شروع لیکن تھانیدار گھردار بھی تھا اور تھانیدار بھی اس لئے کم ہی ٹپکتا تھا جو پکے اور اچھے گاہک تھے انہوں نے ایک ہی ہفتے میں نئی جگہ کی بو سونگھ لی اور ادھر آنکلے اور ویسے بھی ریلوے اسٹیشن کے مسافروں کی رغبت کے لئے ایک شاطر قلعی کی زبان پر یہ جملہ رٹا ہوا تھا 
صاحب تھکاوٹ دور کرنے کےلئے کچھ دیرسستا لیں جگہ بھی ہے شنو اچھی خاطر مدارت بھی کرینگی پھر نکل جانا مولا کا نام لے کر .یہ بتاتے بتاتے وہ سامان اٹھائے ریلوے اسٹیشن کے عقب میں پہنچ ہی جاتا. تب کام اچھا نکل آتا .
ماں بیٹی دن بھر ساتھ رہتے جب کوئی گاہک آتا تو شنو صاف صفائی کرکے دوسرے کمرے میں جاتی اور محفل جم جاتی , روشنی یونہی چیزوں کیساتھ کھیلنے میں مگن رہتی .ماں کی سرخی اٹھاکر لبوں کو سرخ کرڈالتی پائوڈر ڈالتی .بال سلجھاتی, دوپٹہ پہن لیتی اور بڑی عمر کی عورت لگنے کی اداکاری کرتی .یہ اس کے وہ دن تھے جب کوئی بھی بچی اپنی ماں جیسی بننے کی چاہ رکھتی ہے .گڈے گڈی کے کھیل میں یہ بچیاں ایسی کہانیاں اور کردار بنتی ہیں کہ عقل دنگ رہ جائے .ان گڈے گڈیوں کا گھر بنانا شادیاں کرانا گھرداری کرانا ,کام کا سلیقہ یہ سب کھیل کھیل میں یونہی بچیاں بغیر ماں کی توجہ کے سیکھ جاتی ہیں .ماں جیسی لگنا ,ماں کا دوپٹہ پہننا اور اپنے آپ سے بڑی عورتوں جیسی باتیں کرنا روشنی کا معمول تھا .
شنو جب محفل سے فارغ ہوکر کمرے سے باہر نکلتی تو کبھی پیسے اس کے ہاتھ میں ہوتے اور روشنی اس کے کمرے کے دروازے پر ہی کھڑی ملتی جس پر شنو روشنی کو منع کرتی لیکن وہ یونہی اپنی ماں اور گاہک.کو تکتی رہتی .شنو گاہک کو رخصت کرنے کیلئے دروازہ کھولتی.
روشنی کب بڑی ہوئی اور اس نے کب اپنے رہنے کے گن سییکھ لئے ماں کو اس کا اندازہ ہی نہیں ہوا. وقت یونہی گزرتا رہا.
ایک دن یونہی خاموشی چھائی ہوئی تھی , شنو غسل خانے میں تھی جب وہ باہر نکلی تو اسے دوسرے کمرے سے کھسر پھسر کی آواز ائی.اسے جھٹکا سا لگا کہ روشنی اپنے کمرے میں کسی کیساتھ کانا پوسی کررہی ہے کھسرپھسر سے ٹھیک لگ رہا تھا کہ وہ کسی کیساتھ سوئی ہوئی ہے .ایک دوسرے کو چومنے کی ننگی آوازیں آرہی تھیں .ایسا لگ رہا تھا کہ دونوں میلاپ کے انتہاء پر ہیں .شنو نے سوچا کون ہوگا روشنی کیساتھ , وہ لڑکا جو کمرے کا باڑہ لینے آتا ہے یا پھر وہ قلعی .ہوسکتا ہے وہ سبزی والا ہو جس کو شنو کئی دفعہ روشنی کیساتھ تکرارکرتے دیکھ چکی تھی .شنو کا ذہن برق رفتاری سے اپنی بیٹی کی آشنا کے بارے میں اندازہ لگا رہا تھا .آنا فانا کئی تصاویر اس کے ذہن میں گردش کرنے لگیں .اسے اپنی بیٹی کی چلن پر بڑا دکھ ہوا .
کیا ہوا کہ میں خود دھندہ کرتی ہوں لیکن میری بیٹی بھی اور میری اجازت کے بغیر . یہ ایک کوٹے والی ماں کےلئے بھی اذیت ناک لمحہ تھا .اس نے تیز قدم اٹھائے اور دروازے پر پہنچی .اس نے جب دروازے کے سوراخ سے جھانکا تو اسے عجب منظر نظر آیا .
روشنی برہنہ ہوکر بستر پر لیٹی تھی اپنی چھاتیاں خود دبارہی تھی اور لطف سے چور ہورہی تھی اور ساتھ میں اپنی ٹانگوں کو یوں اوپر اٹھا رہی تھی جیسا کہ اوپر لیٹے ہوئے کیساتھ لپٹ رہی ہو اور اس کے ساتھ باہم پیوست ہونا چاہتی ہواور بار بار اپنا سر سرور سے جھٹ رہی تھی اور جسم یوں ہلا رہی تھی جیسے اوپر والا زور زور سے حرکت کررہا ہواور یہ مسرت سے کراہ رہی تھی روشنی بکھرے بالوں کیساتھ کراتی ہوئی اوپر والے کیساتھ لذت اور مستی سے بھرپور اکھیوں سے دیکھتی جیسا کہ اوپر والے کو مزید مشتعل کررہی ہو اور اوپر والا سرکش گھوڑی کو قابو کرنے کیلئے اپنا پورا زور لگا رہا ہو.وہ مسرت سے نکلی ننگی آوازوں کو دبانے کی کوشش میں اپنے ہونٹوں کو بدندان دباتی رہی. شنو یوں اپنی بیٹی کو یہ سب کرتے دیکھتی رہی اس کے پائوں اندر جانے سے رک گئے تھے. اس کے چہرے پر غصہ اور حیرانگی بھی باقی نہیں رہی تھی .وہ محفل کو تخلیہ ہونے تک دیکھنا چاہتی تھی وہ اپنی بیٹی کا سڈول اورحسین جسم دیکھ رہی تھی. روشنی برہنگی میں قیامت ڈھا رہی تھی کہ عالم شباب کے زوروں پر روشنی کا چکنا جسم کسی مردے جسم میں بھی ارتعاش پیدا کردے . 
اب تیزی پیدا ہو چکی تھی روشنی نے اپنے جسم کو یوں تیز تیز جنبش دینا شروع کردیا جیسا کہ پیاسی زمین پر بارش کے قطرے گرنے لگے ہوں.اس کی آواز میں تیزی تھی . بالآخر روشنی سیرآب ہو چکی تھی.وہ سمٹ گئی اور پڑی چادر سے اپنا جسم ڈھانپنے کی کوشش کی اور کہا!
دیکھو بابو میں نے پوراانصاف کیا ,یہ میری پہلی کمائی ہے تم سے بھی اچھی شروعات چاہتی ہوں.
یہ کہہ کر روشنی نے ہاتھ بڑھایا اور یوں لگا جیسے اس نے پیسے لے کر سرہانے رکھ دیئے .
روشنی بکھرے بال سنورے اور کپڑے پہن کر اس نے اطمینان کا سانس لیا اور کمرے سے باہر نکل گئی .
شنو دروازے سے پیچھے ہٹ چکی تھی .اسے اطمینان ہوا تھا کہ اس کی بیٹی کیساتھ کوئی دوسرا نہیں.تھا بلکہ اس کی بیٹی اس کو دیکھ دیکھ کر خود بھی اپنے آپ کو میری جگہ لینے کےلئے تیار کررہی تھی .

مجھے پہلی دفعہ گاہک کیساتھ کمرے میں بھیجتے ہوئے میری ماں رو پڑی تھی کہ میں انجان تھی لیکن روشنی دروازے سے جھانکتے ہوئے مجھے دیکھتی رہی اور خود کو پہلے ہی تیار کر گئی شاہد مجھے اسے پہلے گاہک کیساتھ کمرے میں بھیجتے ہوئے درد کم محسوس ہو. یہ سوچتے ہوئے آنسو شنو کے گالوں کی جھریوں سے بہنے لگے .

Dohry Qatal Par Dohri Khamoshi Zarak Mir

دوہرے قتل پر دوہری خاموشی 
بلوچستان میں گمنام قبروں کی ایک انوکھی قسم
زرک میر 
جس دن اس دیس کے مغرب میں اقتصادی راہداری کااعلان کیاگیا‘جس دن چینی وفد یہاں آیا تھا جس دن شمال میں مغربی روٹ کا افتتاح ہورہاتھا‘جس دن دیس کانیا وزیراعلیٰ حلف اٹھارہا تھا جس دن پرانا وزیر اعلیٰ الوداعی خطاب کررہاتھا جس دن وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 13نکات پیش کئے جارہے تھے جس دن اس دیس کے وسط جنوب اورمغرب میں بلوچ کلچر ڈے منایاجارہاتھا جس دن خواتین کا عالمی دن منایاجارہاتھا جس دن شال میں سموراج تحریک کی حلف برداری تھی ‘جس دن جنوب وڈھ میں میڈیکل کیمپ کا افتتاح کیاجارہاتھا تب تب ہراس دن اس دیس کے مشرق میں دو دو قتل ہوتے رہے‘ ایک عورت اور مرد کا ‘ یہ قاتل غیر نہیں ‘یہ قاتل ترقی اورتہذیب سکھانے والے پیشہ ور قاتل نہیں ‘‘یہ قاتل مخالف قبائلی قاتل بھی نہیں ‘یہ قاتل غنڈہ موالی چورڈاکو اور سمگلر بھی نہیں ‘ اور یہ قاتل پولیس والے بھی نہیں ‘یہ قاتل کوئی عاشق بھی نہیں جو رشتہ نہ ملنے پر قتل سے بھی دریغ نہیں کرتا ‘ یہ قاتل وہ بھی نہیں جو مذہب کے نام پر قتل کرتا ہے فرقہ واریت کے نام پر قتل کرتا ہے ‘یہ قاتل باہر سے نہیں آتا یہ قاتل لسانی بھی نہیں جبکہ یہ قاتل کہیں باپ ہے تو کہیں بھائی ہے تو کبھی شوہر ہے اور کبھی بیٹا ہے جو ایک ساتھ دوقتل کرتاآرہاہے اور یہ شاہد دنیا کا واحد قتل ہے جواپنے ساتھ دوسرے قتل کیساتھ مشروط ہے یعنی قتل کی منفرد اوردلچسپ قسم ہے جواپنے جواز کے لئے دوہرے قتل کیساتھ مشروط ہے یعنی ایک قتل کیساتھ دوسرا قتل لازمی ہے جب یہ قتل دو قتل بنتے ہیں تو اس کے لئے سماج میں معافی کا تصور ہے اگر قتل ایک ہے تو ناقابل معافی ہے اگر دو ہیں تو قابل معافی ہیں اور یہ قتل اگر دو ہوں تب یہ غیرت کے پیمانے پر آتے ہیں یعنی سیاہ کاری کے قتل میں دو قتل لازمی ہیں ۔بلوچستان کا مشرق مسلسل مقتل گاہ بنا ہے ‘ روزانہ کی بنیاد پر قتل ہورہا ہے ‘ یہ وہ مخفی سلسلہ قتل ہے جو قانون کے دائرہ اختیارمیں نہیں آتا اور یہ قتل قتل نہیں بلکہ تہذیب کا انمٹ حصہ ہے اب پتہ نہیں مہر گڑھ والوں میں یہ چیز تھی کہ نہیں، تہذیب کا یہ تقاضہ قتل دریائے نیل کے بھی تقاضہ قربانی سے بڑھ کرہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں عورت قتل ہوتی ہے لیکن ایک مرد کیساتھ ، اس دوہرے قتل میں مرنے والوں کو شہید بھی نہیں کہاجاسکتا بلکہ متقول بھی نہیں۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مردار قتل ۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ قتل ہے جو بطور قتل بھی یاد نہیں کیاجاتا ۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ قتل ہے جس کا جنازہ بھی نہیں اور شاہد قبر بھی نہیں (گمنام قبریں) یہ وہ قتل ہے جو معاشرے کی تاریخ کا حصہ بھی نہیں بنتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ قتل ہے جو اپنے اندر لرزہ خیزی بھی نہیں رکھتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میونسپلٹی کے کتامارمہم کی پبلسٹی سے لے کراس میں کتوں کی موت تک حساب کتاب ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج دس کتے ماردیئے گئے کل پچاس اورمارنے کا ہدف ہے ۔۔۔۔۔ شہری اپنے پالتو کتے اور کتیہ باندھ کررکھیں ،وارنگ دی جاتی ہے ، کتوں میں تخصیص لازمی ہوتی ہے یہ تخصیص قانون کراتا ہے اور سچ ہے کہ قانون انسانوں کے لئے انسانوں کے ذریعے ہی بنائے جاتے ہیں لیکن انسانوں کا یہ طبقہ کتوں اور کتیوں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ یہ پالتو نہیں بلکہ آوارہ اور باغی انسان ہوتے ہیں جو سماج کے بندھوں کے باغی ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن باغی انسان تو اچھے ہوتے ہیں کم ازکم انقلابیوں مارکس وادیوں اور قوم پرست لبرلوں (کینیڈین لبرلز) سموراجوں پروفیسروں اورصوفیوں کے لئے توان باغیوں کی بڑی مانگ ہے قدر ہے لیکن یہاں اس دیس کے انقلابی مارکسی وادیوں قوم پرستوں چے گویروں کینیڈین لبرلوں اورسموراجوں کے لئے ان باغیوں کی کوئی قیمت ہی نہیں ، جو مررہے ہیں سباش چندر بوس کے بقول انقلاب کے لئے جو خون چاہیئے ہوتا ہے اس سے کئی زیادہ خون بہایاجارہاہے ان کا نہ تو کوئی فرنٹ بنا نہ کوئی مارکسی بنیادوں پر پارٹی بنی نہ کینیڈین چارٹر بنا نہ سموراج بنا نہ کوئی مست توکلی راج موومنٹ بلکہ یہ محبت کے منشور کے تحت بغیر کسی پارٹی کے قربانی پر قربانی دے رہے ہیں نہ تو اقوام متحدہ سے اپیلیں ہیں نہ کسی عالمی فیکٹ فائنڈنگ مشن کا انتطار ہے نہ کوئی نکات پیش ہورہے ہیں اور نہ ہی کوئی اے پی سی ہورہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس مسئلے میں نہ تو سرمایہ دار ملوث ہے نہ سمگلر ملوث ہے نہ استعماری ریاست ملوث ہے نہ ہی کمب کے میلے میں بچھڑے ہوئے اتحادی ملوث ہیں نہ ہی کوئی سیاسی گروہ ملوث ہے تب اس معاملے سے ان جوڑوں کے دہرے قتل سے فرنٹوں کا کیا کام کیا تعلق؟وہ تو کچھ بڑھیا کرنا چاہتے ہیں مارکس وادی تو ہر شہ کو ذرائع پیدوار کی آنکھ سے دیکھتے ہیں انہیں تو اس معاملے میں براہ راست ذرائع پیداواراورسرمایہ دار نظرنہیں آتا(البتہ ایک نقطہ نظر کے تحت یہ مسئلہ معیشت سے جڑا ہوا بھی ہوسکتا ہے ) تب ہی ان دہرے قتل پرکسی کی نظر نہیں پڑتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یونیورسٹی کے پروفیسرصاحبان کی نظروں سے بھی یہ دہرہ قتل اوجھل ہے جہاں نہ کو ئی سیمینار ہے نا کوئی غزل ہے نا کوئی نظم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ پروفیسربھی کمال کرتے ہیں بلوچستان جل بھن گیا ان کی طرف سے کوئی سمینار منعقد نہیں ہوا،ان سے تو لاہور کے پروفیسر تیمور الرحمان صاحب اور سبین محمود مستعد نکلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ممکن ہے کہ سیاہ کاری پر لکھنے کو اپنا شان نہ سمجھتے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پہلے بھی کہا پھرکہونگا کہ عبدالحمید تگہ نے پنجاب کے نصاب میں کچھ غلط نہیں لکھا ،کیونکہ اپنی قومی حماقتوں پربلوچ خود نہیں لکھیں گے تو کوئی دوسرا ان کوضرور طشت ازبام کریگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی تاریخ بھی مستند نہیں ، مہر گڑھ پر بھی فرانسیسی تحقیق کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تاریخ کون لکھے گا ؟ مہر گڑھ کون جائے گا ؟نصیروجعفرآبادیوں میں کون جاکرتحقیق کرکے حقائق سامنے لائے گا ؟کوئی عبدالحمید تگہ جاکر کچھ لکھے گا تو پھر بلوچ غیرت اورعزت کا سبق ازبرکرنے والے سینہ تھان کرکھوستے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سموراج والے تو اپنی شہری لیبارٹریوں سے کہیں اور جانے کا نام ہی نہیں لیتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کاش شہر میں قائم ان لیبارٹریوں میں نصیر آباد جعفرآباد جیکب آباد شکارپور اور ڈھاڈر کے ان مردارقتل پانے والوں کا کبھی فرانزک جانچ پڑتال ہوتی تب بھی خوشی ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی توٹیسٹ اورتحقیق سامنے آتی کہ ان دوہرے قتلوں کی وجہ کیا ہے ؟ اب آسودہ حالی کا حال یہ ہے کہ پروفیسرصاحبان ڈاکٹر صاحبان مترجم بن کر پھولے نہیں سماتے لیکن ساتھ لاہوریوں سے کچھ ایسے حوالے سن کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر مطمین ہوجاتے ہیں کہ بلوچ پڑھنے میں ملک میں سب سے آگے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا ہدایت دے ڈآکٹر مبارک علی ارشد محمود اور نیازمانہ والوں کو جنہوں نے یہ کہہ کربلوچ کو افین کھلادیا کہ بلوچ سب سے زیادہ کتابیں پڑھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب باہر کی کتابوں پر کتابیں یہاں چھاپی جارہی ہیں ترجمے پر ترجمے ہو رہے ہیں مارکسی لٹیریچر روسی ادب ویتام کی جنگ چے گویرا کے محبت بھرے خطوط چیئرمین مائو کے حالات ، نیلسن منڈیلا کا سوانح عمری ، چیخوف کے افسانے اسپارٹیکس مارکیٹیں بھری پڑی ہیں لیکن کوہلو میں سمو کیسے رہتی ہے ؟ جھالاوان میں جیجا کوکیا مسائل ہیں مکران میں بزگ گہار کو کن کن سختیوں کو جھیلناپڑتا ہے ؟ رخشان میں نیاڑی کون کون سے مصائب جھیل رہی ہے ؟ بلوچ کا چیخوف کون ہے ؟مہرگڑھ والے کون تھے ؟ قلات مکران لسبیلہ اورخاران کی تاریخ کیا ہے؟ لیکن بلوچ کی اپنی منفرد تحقیق کی حامل کوئی کتاب موجود نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈھاڈر نصیر آباد جعفرآباد جیکب آباد اور شکارپورمیں غیرت کا پیمانہ مکران میں بلوچ کے غیرت کے پیمانے سے کیوں مختلف ہے؟ قلات میں قدرے صلح رحمی کا کیا جواز ہے ؟ رخشان میں قدرے پردہ پوشی میں کون سی حکمت عملی پنہاں ہے ؟جھالاوان میں غیرت کا یہ گرم لوہا کیوں قدرے ٹھنڈا پڑ جاتا ہے؟ لسبیلہ والوں کو کونسا استثنیٰ حاصل ہے؟ ڈیرہ غازی خان میں کون سی ایسی بات ہے جہاں عورت قتل ہوتی ہے ایک مرد کیساتھ اور بلوچ کوڈ اورقومی اقداراسے جواز دیتے ہیں ؟ مجھے پورے بلوچ سرزمین پر سیاہ کاری کے دہرے قتل میں دہرے بلکہ تہرے معیارکیوں نظرآتے ہیں؟ مارکس وادیوں قوم پرستوں (کینیڈین لبرلز) فرنٹوں سالویشنوں اکیڈمیوں اور پروفیسروں کے پاس اس کا کیا جواز ہے ؟ان تمام قومی اسٹیک ہولڈروں کے پاس اس روزانہ کی بنیاد پر گمنام قبرستان والے متقولوں کے غیر شہید اور غیر قومی قتل سے چشم پوشی کا کوئی جواز ہے ؟ نیشنل پارٹی ییپاٹائٹس کو بلوچ قومی بیماری قراردیتی ہے ۔۔۔۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ یہ دہرے قتل کیوں ہورہے ہیں؟ اس کے پس منظر میں ان بلوچوں میں باقی بلوچوں کی نسبت غیرت کے پیمانے میں اونچ نیچ کا فرق کیوں ہے؟یا یہ عشقیہ باغی پن رویہ کے باعث ہے ؟اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ باقی بلوچستان میں عشقیہ باغی پن قدرے کم ہے ؟کیا ان بلوچوں کاانداز رہن سہن مخلوط طرز پر ہے جہاں باہمی ملاپ کے مواقع قدرے زیادہ ہیں تب یہ تعلقات رونما ہوتے ہیں اور پھر دہرے قتل کے منطقی انجام سے دوچارہوتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ۔ یہ علاقے اس قدر پسماندہ بھی نہیں کہ چاردیواری کا تصورتک نہ ہو البتہ کھیتوں میں ساتھ کام کرنے کی بابت میل ملاپ کے مواقع زیادہ میسر ہوسکتے ہیں تاہم اگر ایسا ہے تو پھر یہ عام رجحان ہونا چاہیئے یعنی اس حمام میں سب ننگے ہیں تو اس قدر غیرت کیوں؟ اور اس قدر غیرت کہ دہرے قتل پر موقوف ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ پسند کی شادی کا نہ ہونا بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے لیکن یہ پورے بلوچستان کے تناظر میں یکساں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جائیدادوں میں حصہ نہ دینے کی پاداش میں اس قتل کا جواز بھی اپنی اہمیت کھو چکا ہے جو این جی اوز کی طرف سے اچھالاگیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ ان قتلوں میں اکثریت کا تعلق ان غریب خاندانوں سے ہے جو اس قدر جائیداد نہیں رکھتے کہ اس کے لئے بیوی بہن ماں اور بیٹی کو قتل کیاجاسکے اورپھر اس کے لئے تمام عورتوں اور پھر عورتوں کو ہی کیوں مردوں کو بھی قتل ہونا چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ ایک چیز اپنے مشاہدے کی بنیاد پر کہہ سکتاہوں کہ یہ رسم بلوچ قدرے کم اور سندھیوں میں زیادہ ہے تاہم یہ دونوں اقوام کی میراث ہے اور یہ دوسرے بلوچستان کی نسبت مشرقی بلوچستان میں قدرے زیادہ انداز میں سرگرم عمل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس ناسور کو قومی روایات کا حصہ کہاجاسکتا ہے کیونکہ کم وبیش یہ بلوچستان کے تمام علاقوں میں ہوتاآیاہے اور مشرقی بلوچستان میں یہ عروج پر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(سندھی دوست سے اس حوالے سے رائے پوچھی اگر رائے آگئی تواس کو بھی شامل کرینگے)

یہ وہ رسم ہے جس پر شاہد مذہب کی طرف سے ابھارکم اور قومی روایات کی ترشی زیادہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اب اس پر بلوچ کی پارٹیاں اکیڈمیاں اور پروفیسر کیا رائے رکھتے ہیں اس سے آگاہی ضروری ہے اور اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ عورتوں کی تحریک کو چاہیئے کہ اس دوہرے قتل (جس میں مرکزی کردارعورت کی ہے ) کی وجوہات کو جاننا اور اس کے روک تھام کے لئے کردار ادا کرنے کو منشور بنایاجانا چاہیئے کیونکہ حاصل معلومات کے تحت تاحال یہ تحریک منشور سے عاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ اس سموراج میں شامل خواتین اپنے گھروں میں اس قدر اختیارحاصل کرچکی ہیں کہ انہیں اکیڈمی تک ان کے شوہر حضرات ہی ڈراپ کرتے ہونگے چنانچہ اصل مسئلہ اس قتل کا ہے جو نہ تو شہید کہلاتا ہے نہ مقتول کا درجہ حاصل کرتا ہے جس کا بدلہ لازم ہوتا ہے (شہید کا بدلہ جنت ہے اور متقول ومتقولہ کا بدلہ اس دنیا میں ہے )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دوہرا قتل ازخود اپنے اندر معافی کا قومی جواز رکھتا ہے اس قومی جواز کو چیلنج کرنا ضروری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Rape Short Story By Zarak Mir

"ریپ "
زرک میر
آئو دیواروں سے کان لگائیں 
کیوں؟
کہ ان مقدس دیواروں کے اندر کیا ہوتا ہے ؟
کیا ہوتا ہے ؟
ریپ ہوتا ہے 
کیا؟ لیکن یہاں تو میاں بیوی رہتے ہیں 
دیکھو تو 
سلیم کی باتوں سے شاہد ششدر رہ گیا 
کھڑکی سے کمرے کا منظر زیرو بلب میں مدہم نظر آرہا تھا
شوہر بیوی کے کپڑے اتار رہا تھا 
بیوی کا جسم تھرتھر کانپ رہا تھا 
آج بیمار ہوں ہڈیاں کانپ رہی ہیں 
عورت نے التجا کی
آج پورا چاند ہے ملا اور حکیم نے کہا کہ آج ضروری ہے. لیٹ جا 
مرد کا بھاری بھر کم ہاتھ عورت کے کاندھے پر پڑا جس کے دبائو سے عورت نیچے بستر پر پڑ گئی .اس کا جسم سمٹ گیا پیشانی پسینے سے شرابور تھی 
مرد نے ہل جل شروع کردی .عورت کی آواز تک نہیں نکل رہی تھی لیکن صاف دکھائی دے رہا تھا کہ عورت کا سینہ ابل رہا ہے جس سے دبی ہوئی آواز نکل رہی تھی اور وہ بے بس لیٹی ہوئی تھی .
مرد کی حالت ایسی تھی کہ لگ رہا تھا کہ کسی اندھیرے میں کوئی کتا ہڈیاں چبا رہا ہے 
فارغ ہوکر مرد نے کپڑے پہنے اور اپنی بستر پر لیٹ گیا دیکھتے ہی دیکھتے خراٹے لینے لگا .عورت یونہی اپنی جگہ پر برہنہ پڑی رہی . 

Char dewari By Zarak Mir

چا ردیواری 
زرک میر 
دشت کا علاقہ ہے ‘بہار کا موسم ہے ‘ہرطرف ہریالی ہے ‘خانہ بدوش دشت کے دامن میں تیزی سے آکر پڑھاﺅ ڈال رہے تھے ‘صبح فجر کے وقت پڑاﺅ ڈالنے والے آگے سفرکو بڑھنے لگتے سامان سے لدے اونٹ اور گدھے قطارمیں روانہ ہوتے ‘ کتے بھی زبان لٹکائے اونٹوں کے پیچھے پیچھے چل دیتے۔ پرانوں کے جانے کے بعد نئے قافلے آکر پرانے پڑھاﺅ ( حنکین) کی جگہ نیا پڑاﺅ ڈالتے‘ شازو کا باپ دشت کا زمیندار تھا وہ ہر موسم میں دشت میں ہی رہتا تھا ‘گھر میںکچھ بنیادی سہولیات میسر تھیں ان سہولیات میں گھر کا چھت بھی شامل تھا جو پاوالی لوگوں کے پاس نہیں تھا۔شازوہرنئے قافلے کے پیچھے ہولیتی جو دشت کے دامان میں ان کے گھر سے کچھ دور پڑھاﺅ ڈالتا۔خانہ بدوشوں کو مستقل آبادیوں اورفصلوں سے دور جاکر پڑھاﺅ ڈالنا ہوتاتھا سو شازو اودیگر بچے ان قافلوں کا پیچھا کرتے ان کی عورتوں بچوں کو دیکھتے جو بولان کا طویل سفر طے کرکے دشت پہنچے تھے ‘جو تھکن سے چورلگتے تھے ‘ہونٹ ایسے خشک کہ لگتاتھا کہ پانی کا بوند کہیں عرصے سے حلق سے نہ گزرا ہو ۔ان خانہ بدوشوں کے بزرگ جن میں خواتین بھی شامل ہوتی ہیںپہلے سے بنے پڑھاﺅ کی جگہ صاف دیکھتے یاپھر شتر بانوں کو ان منتخب جگہوں پر اونٹوں کو لے جانے کا کہتے ‘اونٹوں کا قافلہ اس جگہ پہنچتا اورشتربان ان اونٹوں کوبٹھانے کی کوشش میں جت جاتے کیونکہ اونٹ ایک تو طویل سفر سے آئے اور ان پر کافی سامان لدا ہوتو اسے بٹھانا ایک مہارت کاکام ہے اونٹ پر جب سامان لادا جائے یا پھر اتارا جائے یا بیٹھے اونٹ کو اٹھایا جائے یاپھر بٹھایاجائے تو یہ بڑی فریاد کرتا ہے‘اس فریاد میں اونٹوں کی منہ سے جاگ نکلنے لگتا اور ان کی زبان باہر لٹکنے لگتا شازو یہ دیکھ کر بڑا محظوظ بھی ہوتی اور اونٹوں پر رحم بھی آتا۔خواتین اور مرد مل کر سامان اتارتے ‘بچے ‘مرغیاں ‘میمے میمنیاں سب گدھوں پر بندھے ہوتے ان کو بھی اتاراجاتا ‘خانہ بدوش بچے حیران ہوتے کہاں آگئے لیکن حیرانگی سے زیادہ تھکاوٹ اور مسلسل سفرسے وہ بھی شل ہوچکے ہوتے لیکن شازو جیسی دیگر بچیوں کو دیکھ کر وہ سہم جاتے ۔شازو ان بچوں کے لئے گھر سے کچھ نہ کچھ ضرور لے آتی اور ان کو بانٹ دیتی یہ دیکھ کر ان کے ہونٹوں پر ہلکی سے مسکراہٹ آتی جس سے شازو خوش ہوجاتی ۔خانہ بدوشوں کی خواتین اور مرد شازو اور ان جیسی بچیوں اور بچوں کو دیکھ کر کچھ غوربھی نہیں کرتے کیونکہ ایک تو سفر کا تھکان اور پھر یہاں پڑھاﺅ ڈالنے کے ساتھ ہی ان کو اب پانی اور کھانا پکانے کے لئے لکڑیوں کا بندوبست کرنا تھا ۔ عورتیں جلدی جلدی مشکیزوں کو نکالتیں اوران میں سے کچھ پانی کے لئے شازو کے باپ کے ٹیوب ویل کی جانب جاتیں شازو بھی ان کے ساتھ ہولیتی اورراستے میں ان سے پوچھ بیٹھتیں ۔
شازو!تمہارا نام کیا ہے ؟
ان میں نسبتا بڑی عمر کی لڑکی کہتی ہے ‘ شانتل 
شازو !تم لوگ کہاں سے آرہے ہو؟
شانتل !ہم کچھی سے آرہے ہیں 
شازو !راستے میں کتنے دن لگے 
شانتل !پانچ دن لگے 
شانتل بات کرنے کے موڈ میں ہی نہیں تھی لیکن شازو کا تجسس تھا کہ بڑھتا جارہاتھا اور سوال پر سوال پوچھے جارہی تھی اورپھر پاوالی لوگ عام لوگوں سے انتی جلدی کھل کر بات بھی نہیں کرتے ان کی اپنی الگ ہی دنیا ہے ‘شازو کے تجسس اور اصرار پر شانتل مختصر جواب دیتی رہی ۔
شازو !پانچ دن پیدل آئے ہو یہاں تک ؟
شانتل !ہاں اورہر سال ہم جاتے بھی پیدل ہیں اور آتے بھی پیدل ہیں ۔
شازو !تم لوگ تھکتے نہیں ہو‘شازو کا سوال انتہائی معصومانہ اور شانتل کے لئے اس کے درد کا احساس جگانے کیلئے کافی تھا ۔
شانتل نے پانی کیلئے اٹھائے کین کو سیدھے بغل سے اتارکر الٹے بغل میں دبا کر گویا ہوئی 
اب ہم بھول چکے ہیں کہ تھکاوٹ کیا ہوتی ہے ‘ہم زندہ ہی اس پیدل چلنے کی وجہ سے ہیں اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہمارے (سا دار)بھیڑ بکریوں کا کیا ہوگا وہ تو بھوک سے مرینگے اور ہم بھی مر جائیں گے ۔
شازو کچھ افسردہ ہوئی پھر سوال کر گئی 
راستہ میں کہاں کہاں رکھتے ہو؟
شانتل !
جب بولان میں داخل ہوتے ہیں تو ہمیں اس درمیان میں پانچ دن لگ جاتے ہیں ڈھاڈر ‘دربی ‘ گوکرت درنجن ‘ کڑتہ ‘بی بی نانی پیر غائب آب گم مچھل ہیرونک ‘ہرک دزان کولپور سے ہوتے ہوئے دشت پہنچتے ہیں ۔ اب تو یہ سفر مزید آگے ہوگا ہمیں سرلٹھ جانا ہے 
شازو اس طویل سفر پر حیران ہوکر پوچھیں 
شانتل پھر کب واپس لوٹ آﺅگی ؟
شانتل نے کہا !پھر سہیل (ستمبر )میں واپس کچھی جائیں گے ؟
شازو!پھر اسی راستے سے جاﺅگی 
شانتل !ہاں
شازو نے پھر پوچھا
بولان میں آتے ہوئے ڈر نہیں لگتا‘ویرانی ہے ‘گہرا پانی ہے ‘خوفناک پہاڑ ہیں ‘جنگلی جانور بھی ہونگے ‘ڈاکواورچوربھی راستے میں ہونگے ‘ایک طرف سڑک ہے گاڑیاں ہیں لوگ ہیں ‘ تم کیسے چلتی ہوگی سڑک کے ساتھ ساتھ ۔رات ہوتی ہے تو تم کیا کرتی ہو۔
شانتل !ہم اب بولان کے باسی ہیں یہ ہماری گزرگاہ ہے‘اب تو جنگلی جانور اور ہم میں کوئی فرق بھی نہیں ،وہ ہم سے نہیں ڈرتے ہم ان سے نہیں ڈرتے ،بولان میں ویرانی نہیں ہوتی میرے ساتھ میرا پورا خاہوت (خاندان ) ہوتا ہے ‘ہمارے پاس کیا ہے جو چورڈاکو ہمیں لوٹنے آئیں گے ،ہم سڑک کے کنارے بھی چلتے ہیں لوگ ہمیں دیکھ کر کیا کرینگے ؟ہم شوہان لوگوں کو کون گھورتا ہوگا ،بولان میں جہاں رات ہو ہم پانی کے پاس پڑھاﺅ ڈالتے ہیں ،اس گہرے پانی سے پانی پیتے ہیں ‘کبھی بارش ہوتی ہے تو ہم پہاڑوں کے غاروں میں جاکر سوتے ہیں ،تلخ کہواہ چائے پیتے ہیں چاول وغیرہ پکاکرکھاتے ہیں ،رات خاموش ضرور ہوتی ہے لیکن اس سے ڈرنہیں لگتا بلکہ آسمان اور تارے صاف دکھائی دیتے ہیں ۔صبح پھر سے سامان سمیٹ کر اونٹوں پر لاد کر سفرپر روانہ ہوجاتے ہیں جہاں رات ہوئی وہاں بسیرا کیا اور صبح چل دیئے یہی ہماری زندگی ہے ۔
شازو ۔تمہیں گھر نہیں ہے ہمارے دشت میں گھروں کو دیکھ کر کیا محسوس کرتی ہو؟
شانتل ۔تم لوگ زمیندار ہو ہم شوہا ن ہیں ‘ ہمیں ایسا گھر کیسے مل سکتا ہے ؟اور ہم ایسے گھروں میں رہیں گے تو ہمارے مال و کُر(بھیڑبکریوں) کا کیا ہوگا؟ہمیں تو کچھی پا خراسان سفرکرناہوگا۔
شازونے جھٹ سے کہا 
میری شادی کوئٹہ میں ہورہی ہے وہاں سریاب میں میراپکا گھر ہوگا ۔دشت سے بھی میری جان چھوٹ جائے گی ،وہاں میں باز ار جایا کرونگی وہاں طرح طرح کے لوگ ہونگے ، میرے بہت ساری سہیلیاںہونگی ۔ یہ کہتے کہتے شازو بہت محظوظ ہورہی تھی جبکہ شانتل حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ وہ سوچ رہی ہے کہ اسے دشت جیسا گھر نصیب نہیں دیکھو شازو کتنی خوش قسمت ہے دشت سے کوئٹہ جائے گی اور ایک ہم ہیں کہ ہمیں دشت میں بھی گھر میسر نہیں بلکہ کہیں بھی ہمارا مستقل گھر نہیں ۔
باتوں باتوں میں ٹیوب ویل آگیاتھا
شازو نے ایک اور سوال پوچھا !تمہاری شادی نہیں ہوئی ؟
اس سوال پر شانتل نے شرما کے دوپٹے سے اپنا چہرہ چھپا لیا جس پر دوسری بچی نہیں کہا !
منگنی ہوگئی ہے ہوسکتا ہے اس بار سرلٹھ میں شانتل کی شادی بھی ہوجائے 
اس پر شانتل نے اس بچی کو ہلکاسا تھپڑ رسید کیااور کہا خاموش ہوجاﺅ 
جس پرسب لڑکیاں کھل کھلا کر ہنسنے لگےں 
تم لوگ پانی بھرو میں آتی ہوں ۔یہ کہہ کر شازو بھاگتی ہوئی گھر گئی اور تھیلے میں کچھ چیزیں جلدی سے ڈال کر واپس آئی
شانتل اور دوسری بچیاں اپنے کین پانی سے بھر چکی تھیں اور جانے کے لئے تیارتھیں شازو نے تھیلا شانتل کو دیا 
شانتل نے کہا !یہ کیا ہے ؟
شازو نے کہا !
بسکٹ اور کچھ ٹافیاں ہیں تم لوگ کھا لینا ۔شانتل نے منع کیا لیکن شازو نے سختی سے کہا !یہ میری طرف سے مہمانی ہے ۔
وہاں کھڑے کھڑے شانتل اور شازو نے ڈھیر ساری باتیں کیں اور پھر شانتل اوروہ لڑکیاں رخصت ہوکر چلی گئیں اور یہ شازو او رشانتل کی آخری ملاقات تھی کیونکہ ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں ‘کل صبح شانتل والوں کو جانا تھا اورجب شازو نیند سے اٹھ چکی ہوگی تو شانتل والے چلتن کے قریب پہنچ چکےہونگے یہ سوچ کر شازو بڑا دکھی ہوا اور شانتل کو جاتے دیکھ کراس کے آنسو نکل آئے تھے کیونکہ شانتل نے بھی مسلسل پیدل سفر بولان میں پڑاﺅ تھکاوٹ سے ناآشنائی کی وہ داستان بیان کی جو شازو پراثرکرگئی تھی کیونکہ یہ ہر ایک خانہ بدوش لڑکی کا قصہ تھا یہ اس کا طرز حیات تھا سفراور مسلسل پیدل سفر ۔اور شانتل بھی وہ لڑکی تھی جو شاہد اگلی دفعہ اس خاندان کیساتھ یہاں سے نہ گزرے بلکہ اس کی شادی ہوچکی ہوگی اور وہ اپنے نئے خاندان کیساتھ یہاں سے گزرے اور نئے احساسات کیساتھ گزرے ۔
شازو کافی دیر تک شانتل کے بارے میں سوچتی رہی کبھی کھبی اپنے گھر سے باہر نکل کر شانتل کے گدان کی طرف دیکھتی توگپ اندھیرا ہونے کی وجہ سے اسے جلتی ہوئی آگ کا الاﺅ نظرآتااور کچھ نہیں ۔وہ سوچ رہی تھی کہ وہ اب کبھی شانتل کو نہیں دیکھ پائے گی لیکن اس کی یہ اداسی صبح تک تھی کیونکہ صبح شانتل گئی ہوگی تو اس کے جگہ پر ایک نیا خاندان آگیا ہوگا جس میں ضرور کوئی شانتل ہوگی ۔
شازو ان شانتل نما لڑکیوں کے حالات زندگی سن سن ان کے بے گھر ہونے پرافسوس تو کرتی لیکن خود اپنے دشت والے گھر اور پھر شادی کے بعد کوئٹہ والے گھر کے بارے میں سوچ سوچ کر خوش ہوتی رہتی تھی۔اگلے سال ہتم(موسم بہار) آیا تواس کی شادی مانگی گئی اسے بہت خوشی ہورہی تھی اب وہ بڑی ہوگئی تھی ہنکین کے پاس تو نہیں جاسکتی تھی لیکن ٹیوب ویل پر اور باغ وکھیتوں میں یہ خانہ بدوش لڑکیاں جب آتیں تو یہ ان سے وہی سوالات پوچھتیں جو شانتل سے پوچھے تھے وہی جواب ملنے پر یہ مزید گہرائی میں جاتی اور اس پر خاموشی چھاجاتی ۔وہ ان خانہ بدوش لوگوں کی محرومیوں کو دیکھ کر دل ہی دل میں روتی رہتی اور سوچتی یہ کیسے لوگ ہیں ان کی زندگی میں کوئی رنگ بھی ہے کہ نہیں ۔اور وہ جسے دشت میں بھی ان پاوالیوں سے زیادہ سہولیات میسرتھیں اس کا باپ اس کے لئے کپڑے لاتا کھانے کے لئے مٹھائیاں اور ٹافیاں لاتا ایسی خوشی پاوالی لڑکیوں کو کہاں نصیب تھیں اب جبکہ شازو بیاہاکرشہر جارہی تھی تواسے پکایقین تھا کہ وہ شہر جاکر او رخوشیاں حاصل کریگی ‘ دشت سے زیادہ سہولیات اسے ملیں گی ‘شہر میں گھومے گی پھرے گی جبکہ ان پاوالیوں کو دشت جیسی سہولیات بھی میسر نہیں ۔
جب اپریل بھی گزرگیا تو شازو کی شادی کی تاریخ طے ہوگئی، وہ اپنی شادی پر بہت ہی خوش تھی ۔اسے بیاکر کوئٹہ لایاگیا‘ دشت سے بڑا اور پکا گھر ‘شازو کا کمرہ الگ ‘ کمرہ سامان سے بھرا ہوا ‘گھر میں رنگ وروغن ایسا کیاگیا تھا کہ شازو کو لگا کہ وہ میدان سے اٹھ کر محل میں آگئی ہے ‘ شوہر بیبرگ سیکرٹریٹ میں سرکاری ملازم تھا۔اس کی ماں دودن رہنے کے بعد واپس دشت چلی گئی اور شازو اپنے گھر میں خود کوملکہ کی مانند تصور کرنے لگی تھی ‘گھر میں ٹی وی اور کیبل پر گانے سنتی، بیبرگ بھی شازو سے پیار کرتا تھا لیکن شازواس انتظار میں تھی کہ کب یہ اپنے گھر سے باہرنکل کردیکھ سکے گی، یہاں کے لوگوں سے کب ملے گی یہ لوگ کیسے ہیں کیساعلاقہ ہے اور کوئٹہ کا بازاردیکھنے کا تو اس کا بڑا من کررہاتھا لیکن یہ کیا یہاں کوئی بھی عورت باہر نہیں نکل رہی تھی سب گھر میں ہی رہتیں ۔شازودن بھر کام کرنا لیکن اس کے باوجود وہ گھر سے باہر اب تک قدم تک نہیں رکھ چکی تھی‘ اس کا گھر کس گلی میں ہے کیسے لوگ یہاں رہتے ہیں ۔ بالآخر ایک دن بوریت کے مارے بی برگ سے کہا 
مجھے کب باہر گھمانے لے جاﺅگے ؟ مجھے یہ علاقہ دیکھنا ہے بازار بھی جانا ہے ۔
بی برگ جو ابھی ابھی باہر سے کمرے میں داخل ہوا تھا شازو کی بات سن کر فورا بولا 
کیا کہا تم نے شازو ؟ تم گھر سے باہر کیوں جانا چاہتی ہو؟
شازو نے کہا یونہی میں نے سنا ہے کہ کوئٹہ میں عورتیں اپنے لئے کپڑے اور دیگر سامان خریدنے جاتی ہیں ، پارک جاتے ہیں مجھے بھی جانا ہے ایک مہینہ ہوا ہے گھر سے نہیں نکلی ہوں 
بی برگ کا یہ سن کر چہرہ شکن سے بھرگیا اور غصے میں کہا
تمہیں شاہد پتہ نہیں دو ہفتے پہلے کچھ عورتیں شاپنگ سینٹر گئی تھیں ان پر تیزاب پھینکا گیا ہے وہ جھلس گئی ہیں اب یہاں سے کوئی عورت گھر سے باہر نہیں جائے گی اور ویسے بھی گلی میں سب اس انتظار میں ہیں کہ کب بی برگ کی نئی نویلی دلہن نکلے اور ہم اس کو دیکھیں ۔ یہ سب بیروزگار لڑکے گلی میں اسی آسرے پر پڑے رہتے ہیں ۔نابابا نا ہمارے گھر سے تو کوئی عورت باہر نہیں جائے گی اور خاص کر تم تو بالکل نہیں نکلوگی۔ لوگ کیا کہیں گے کہ وہ دیکھو بی برگ کی بیوی جارہی ہے اور بازار کے بارے میں سوچنا بھی نہیں ۔یہاں نیا مولوی آیا ہے وہ کہتا ہے کہ تمہاری عورتیں جب باہر جاتی ہیں تو ان پر جن جن کی نظر پڑتی ہے وہ سب گناہ تم لوگوں کے ہی حصے میں آئیں گے ۔ویسے بھی باہرمیری عزت ہے تم گھر میں میری عزت رکھو گی تو باہر لوگ میری عزت کرینگے ۔یہاں ہمارے قبیلے کے لوگ نہیں رہتے یہاں ہر طرح کے لوگ رہتے ہیں یہ دشت نہیں کہ باہر نکلو تو ماما چچا چچی اور رشتہ داروں کے گھر ملیں گے تمہیں ۔دشت سے تمہیں بیاہ کرلایا تھا کہ تم سیدھی سادگی سی لڑکی ہوگی باہرنکلنے کا سوچوگی بھی نہیں لیکن تم ہوکہ باہر جانے کا سوچتی ہو۔
کئی دفعہ شازو کے پلٹ جواب پر بی برگ شازو کو تھپڑ رسید کردیتا ۔

شازو یہ سن کر بہت ہی افسرداہ ہوئی کہ وہ کیا سوچ کر خوش ہورہی تھی کہ وہ اب دشت بیابان سے شہر میں آئی ہے اب گھومے گی پھرے گی ۔بازار جائے گی لیکن یہاں تو اس سے پردہ کروایاجارہاہے عزت کا سارا بوجھ اس کے کاندھے پر لادھا جارہا ہے ۔ایک مہینے سے وہ چار دیواری سے آسمان کو دیکھنے کے علاﺅہ کچھ دیکھ نہیں پارہی تھی وہ دشت کی کھلی فضاء‘اس کی ٹھنڈی ہوا لیکن یہاں تو ہزار فٹ کے صحن میں اس کا دم گھٹا جارہاتھا ۔یہ دیکھ کروہ سوچنے لگی کہ وہ کتنی پاگل تھی کہ خانہ بدوش لڑکیوں کی مسلسل پیدل سفر تھکاوٹ اور تلخ چائے پر جینے پر افسردہ ہوتی تھی لیکن اب وہ محسوس کرتی ہے کہ وہ خودقید بن کررہ گئی ہے ‘پاوالی لڑکی کو اگر گھر کی سہولت نہیں تو کیا ہوا؟ سال میں دوباربولان کا تین دن تک سیر توکرتی ہے‘ایک ایک جڑی اور بوٹی کو دیکھ آتی ہے ‘بولان کے میٹھے بہتے پانی سے پیاس بجھاتی ہےں ‘اس پانی سے بھیگتی ہیں کھیلتی ہیں ننگے پاﺅں چلتی ہیں ‘پانی بھرتی ہیں یہ ایک دوسرے پر پانی پھینکتی ہیں ‘پھر رات کھلے آسمان تلے سوتی ہیں پھر صبح روشنی پڑنے سے پہلے اٹھتی ہیں کیا منظر ہوگا ؟کیا مستی ہوگی اس وقت کی ؟جب شانتل بولان میں صبح چڑیوں کی چہچہاہٹ سے اٹھ بیٹھتی ہو گی اور انگڑائی لے کر آسمان کی طرف نگاہ ڈالتی ہوگی اور پھربہتے پانی کی موسیقی سے لطف اندوز ہوتی ہوگی اور اس ٹھنڈے پانی سے گونٹ گونٹ پانی پیتی ہوگی اور پھر چارسو نگاہ پھیل کر دیکھتی ہوگی جہاں ہرطرف سبزہ اور پانی ہی پانی نظرآتا ہو ‘پانی ایسا صاف کہ اس میں شانتل کو اپنے بکھرے بال بھی سنوارنے کا خیال آجائے تب یہ اپنے چہرے پر بولان کے ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے بوند ڈالتی ہوگی اوراس کا چہرہ ٹھنڈک سے کھل اٹھتاہوگا اور اس کی غنودگی جاتی ہوگی اور پھر مزید ادھر ادھر نگاہ دوڑائے تو بولان کی فضاءپہاڑ درخت اور بوٹیاں اسے صاف نظرآئیں ،شانتل کتنی آزادرہی ہوگی ‘کام تو سب لڑکیاں اپنے گھر میں کرتی ہیں ‘میں بھی کرتی ہوں شانتل بھی کرتی ہے لیکن جب شانتل بولان میں سڑک کے کنارے اور آبادیوں کے درمیان سے گزرتی ہوگی تو اسے اپنے شوہر کی طرف سے یہ باتیں سننے کو نہیں ملتی ہونگی کہ پردہ کرو ۔یہاں سب مجھے جانتے ہیں ‘باہر میری عزت ہے۔سچ تو یہ ہے کہ پورا بولان ہی شانتل کا گھر ہے جس کی نہ کوئی چھت ہے نہ کوئی چاردیواری ۔چارسو پھیلا وسیع وعریض باغ کی مانند ۔

Dastar....Kafan....Tadfeen By Zarak Mir

دستا ر..... کفن........ تدفین 
زرک میر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
بچی اپنے بال نہ سنوار سکتی ہو ،بہتی ناک صاف نہ کرسکتی ہو ،عورت ہونے کا کوئی اعضائی شعورنہ رکھتی ہو لیکن گڈے گڑیوں (دُ تک )کا کھیل ایسا کھیلتی ہے جیسا کہ اسے دنیاداری کا مکمل شعور ہو ۔کشیدہ کاری کرکے گڑیا بناتی ہے ۔ان کی آنکھیں بال منہ ناک دھاگہ سوئی سے بنا کر خوبصورت کپڑے پہناتی ہے ۔ان کے رشتہ دار بناتی ہے ، ان کے لئے گھروندے بناتی ہے، شادیاں کراتی ہے ،ناراضگیاں ، لڑائیاں کراتی ہے ۔ایک چھوٹی دنیا ۔جس میں زندگی اور موت تک کا سفر بھی دکھاتی ہے ۔
11سالہ بختو کا گھر پہاڑ کے اوٹ میں قائم چند گھروں پر مشتمل خلق (گاﺅں) میں تھا۔گھر گاﺅں کے جنوب کی جانب پہاڑی کی طرف سے پہلی لائن میں قائم تھا ،گھر کے عقب میں کچھ فاصلے پر ایک پرانا درخت سالوں سے قائم تھا ۔انتہائی گہری شاخوں والا یہ توت کا درخت جگنو کے نام سے مشہورتھا ۔ یہ بختوکی پوری دنیاتھی بختو گھر سے نکل کرعقب میں جگنو کے گہرے سائے میں پہنچ جاتی ،پھر اپنی سہیلی ماہ پری کے ساتھ مل کرجگنو کے سائے میں گڈے گڑیوں کی دنیاآباد کردیتی ۔یہ دونوں ان کے لئےگھر بناتیں پھر ان میں ان گڈے گڑیوں کومختلف کام کرتی دکھاتیں ۔کچھ( دُتک) گڈے گڑیاں اگر پرانی ہوجاتیں اوران کے کشیدہ کاری سے بنائے گئے چہرے مسخ ہوجاتے تو وہ ان کے موت کا اعلان کرکے ان کو ان کے لئے بنائے قبرستان میں دفنا دیتیں اور نئے گڈے گڑیاں بنا کر ان کی جگہ پرکی جاتی۔ کبھی بختو کے گڈے گڑیوں کے ہاں شادی کا سماں تو کبھی اس کی سہیلی ماہ پری کے گڈے گڑیوں کے ہاں موت کا سا سماں ۔شادی میں بھی تمام رسم اداکرائے جاتے اور موت میں بھی ۔دفنائے گئے گڈے گڑیوں کی رسم سوئم (خیرات پر) ٹافیاں تقسیم کی جاتیں ۔ 
بختو کا باپ میرو باغات میں کام کرتا تھا ۔ کبھی کسی ٹیوب ویل پر تو کبھی کسی زمیندار کے باغ میں رکھوالی یا باغ فصلیں سیراب کرنے کا کام ۔چند بھیڑ بکریاں بھی گھر کے صحن میں بندھی رہتی تھیں جنہیں الصبح میرو کھول کر پہاڑ کی جانب ہانکتا ۔جب یہ پہاڑ کے قریب پہنچتیں تو میرو اپنے کام کی جانب روانہ ہوتا ۔یہ چرکر دوپہر کو خود ہی گھر کی طرف لوٹتیں ،پھر بختو کی ماں ان کا دودھ دھو کردودھ والی چائے (شیرچاہ) بناتی بختو کی دادی چلم(حقہ) بجھا کرچائے پینے آگے بڑھتی،بختو کا سات سالہ بھائی اکبر بھی پیالہ اٹھاکر چائے کا انتظارکرتا، میرو بھی باغ سے کام ختم کرکے آجاتا،سب مل کر چائے پیتے ۔یہ روز کامعمول تھا ۔ بختو اس دوران اپنے تھکے ماندے باپ سے چھیڑ چھاڑ کرتی ۔اس کے مونچھوں کو تاﺅ دیتی اوردستارکو سیدھا کرکے کہتی دیکھو میرمیران خان بڑے غصے میں ہیں،پھر دستار کی حالت دیکھ کر ہنستی اورکچھ مزاحیہ جملے کستی ۔میرو کا دستار بھی زمانے کے کافی سرد گرم دیکھ چکا تھا ۔گرد آلود ہواﺅں اور تپتی دھوپ تھاپ کر دستارمیں چھید پڑگئے تھے اور دستار کا ہرول سرے سے تارتار ہوچکا تھا۔کپڑے کا رنگ سفید سے بالکل پیلا پڑچکاتھا ۔
اماں اگر آج کھانا پکانے کو کچھ نہیں تواس گوبھی کوہی پکا لیں
ماں پہلے حیرانگی سے ادھر ادھر دیکھتی پھر سمجھ جاتی کہ بختو نے میرو کے دستار کی ہی بات کی ہے ۔
اپنے باپ کے دستار کے ساتھ ایسا مذاق ٹھیک نہیں ،یہ دستار ہماری عزت ہے۔ماں بختو کو ٹوکتی ۔
یہ سن کرمیرو کے ہونٹوں پرہلکی سے مسکراہٹ پھیلتی اور کہتا 
میرا اصل دستار بختو ہے ، میری عزت ہے بختو ۔ بختو سلامت تو میرا دستار سلامت ۔۔۔۔۔
بختو اپنے بھائی اکبر سے چار سال بڑی تھی۔باپ کی لاڈلی تھی ۔
ایک دن میر وموٹے تازے بکروں میں سے ایک بکرے کو شہر بیچنے لے گیا۔،بختو اور اکبر سمجھ گئے آج ان کا باپ میرو ان کیلئے شہر سے چیزیں لائے گا ۔گاﺅں سے سڑک کچھ دور تھی لیکن گھر سے سڑک بالکل صاف دکھائی دیتی، کبھی میرو شہر جاتا تو بختو کی عادت تھی کہ دوپہر کو بس کا انتظارکرتی جونہی سڑک پر بس کو آتی دیکھتی جو پہاڑ کے اوٹ سے نکلتے ہی سڑک پر رک جاتی ،بختو سمجھ جاتی کہ ابا ابھی بس سے اتریں گے ،اس روز بھی بس پہاڑ کی اوٹ سے دکھائی دیتے ہی رک گئی ،بختو آنکھیں پھاڑ کر بس کو دیکھنے لگی ،میرو اتارا اور ساتھ میں کنڈیکٹر اس کا سامان اتارنے لگا ۔ کچھ گٹھڑی اتارنے کے بعد بس دوبارہ دھواں چھوڑتی ہوئی روانہ ہوگئی ۔میرو نے اپنا سامان سمیٹا اورایک گٹھڑی کو کندھے پر اورباقی دونوں کو ہاتھوں سے پکڑ کر گھر کی طرف آنے لگا ۔جوں جوں میرو قریب آتا گیا بختو کا تجسس بڑھتا گیا کہ اس بار اباجان کیا کیا لانے والے ہیں ۔ میرو اب گھر کے اتنے قریب آگیا تھاکہ بختو کو دوڑ کر اس کے پاس جانے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا ۔بختو نے دوڑ لگائی اکبر بھی اس کے پیچھے ہولیا ۔ بختو نے کندھے والی گٹھڑی اباسے لے کر خود ہی اٹھا لی۔ اکبر بھی باپ کے پیروں میں لپٹ گیا ۔میرو نے صحن میں پہنچ کر دم لیا اور سامان نیچے رکھ کر دیوار کیساتھ بچھی دری پر بیٹھ گیا۔۔۔۔ دیوار کی اوٹ میں سائے کافی پھیل گئے تھے ۔ بختو کی اماں نے میرو کیلئے پانی کا گلاس لایا ۔میرو نے پانی پیا ۔ بختو جلدی جلدی دوگٹھڑیوں کو کھول کر دیکھ بھی چکی تھی ۔
ابا نے گوشت لایا ہے ،مٹھائی بھی ہے ،اکبر کیلئے جوتے بھی ہیں ۔واہ میرے لئے دوپٹہ بھی ہے۔۔۔۔
،بختو چیزیں دیکھتی جارہی تھیں اور خوش ہوتی جارہی تھی ۔دفعتا اس کی نظر پلاسٹک کے ایک تھیلے پرپڑی اور چھونک اٹھی ۔
یہ کیا ہے ؟
میرواپنے لئے دوسرے سازوسامان کے ساتھ ایک نیا دستار بھی لایاتھا۔ بختو خوش ہوگئی لیکن باپ کو چھیڑنے لگا
ارے واہ ابا آپ نے میری بات مان لی اپنے لئے نیا دستار لے آئے ۔
اب پرانا دستار مجھے دو اسے میں اپنے گڑیوں کیلئے استعمال کرونگی۔۔۔۔ اس کا کپڑا میری گڑیوں کے کام آئے گا ۔۔۔۔۔۔۔ 
یہ سن کر دادی نے بختو کو ڈانٹا۔۔۔ 
تو اپنے باپ کے دستار کو گڑیوں کیلئے استعمال کریگی ؟دستار کیساتھ ایسا مذاق نہیں کرتے ۔پرانا دستار تو میرے کفن کے لائق ہے اور تو اسے اپنے گڈے گڈیوں کےلئے استعمال کریگی 
بختو کھلکھلا کر ہنس پڑی اور کہا
چلو پھر اسے اپنے پرانے گڈے گڑیوں کیساتھ دفنا دیتی ہوں ،میرے گڈے گڑیوں کی طرح پرانی دستار بھی اب کسی کام کی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔
دادی نے پھر ڈانٹا 
بختو تمہارے گڈے گڑیاں (دتک) بھاڑ میں گئیں ، تم دستار کو دفنانے کی باتیں کیوں کررہی ہو؟یہ بات کرنے سے پہلے تمہارے دانت کیوں نہیں گرے (براہوئی متل " تمے باغا نا" )
بختو کی پھر ہنسی چوٹی ،دادی نیا دستار آگیا ہے اب ابا اس کا کیا کرینگے ؟
لیکن یہ تمہاری گڑیوں کیلئے بھی استعمال نہیں ہوسکتا۔۔۔ سمجھی؟ 
پھر اسے دفنا دینا چاہئے اسے ڈھیر (کچہرہ دان ) میں بھی تو نہیں پھینک سکتے 
بختو نے پھر دادی کو لاجواب کرنے کی کوشش کی ۔۔۔۔ 
بس بختو بس ، جاﺅ اپنا کام کرو تمہیں دستار کی حرمت کا کیا پتہ ،اسے میں اپنے لئے سنبھال کررکھونگی ،اگر یہ میرا کفن بنے تو میری روح کو تسکین ملے گی 
یہ باتیں سنتے سنتے میرو کا چہرہ سرخ ہوتا گیا و ہ ایک دم چیخ اٹھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئی (امی ) یہ کیا رٹ لگا رکھی ہے تم لوگوں نے ۔
بختو کہتی ہے اسے گڑیوں کیلئے استعمال کریگی یا اسے دفنا ئے گی اور تم اسے کفن بنانے کی باتیں کررہی ہو ، کیا میں مر گیا یا میری عزت ختم ہوگئی کہ میرے دستار کو تارتار کرنے پر تلی ہو تم دونوں۔۔۔۔ عورت ذات ہی ایسی ہے ،عزت خاک میں ملانے والی۔آج یہ دستار کے بارے میں نئی نئی باتیں کیوں سننے کو مل رہی ہیں کہیں یہ میرے دستار پر زوال کی نشانی تو نہیں ۔عورت کی زبان کا کاٹا پانی بھی نہیں مانگتا ۔ہماری روایات میں کہیں دستار کو نہ تو کبھی کفن بنایاگیاہے اور نہ ہی کبھی اسے پرانا ہوجانے پردفنایا گیا ہے ۔۔۔۔۔ میرو کا پارا چڑھ گیاتھا۔ وہ وہم کا شکار ہوگیاتھا ایسا ہی جیسے کہ گاﺅں میں یہ روایت ہے کہ رات کے کسی پہر اگر بھونکتے بھونکتے کتے کی آواز روہانسی ہوجائے ،مرغا اگر دوپہر کو آذان دینے لگے کوئی کسی کے دستار کے گرانے کی بات کرے رات کے وقت گھر میں کوئی جھاڑو دے تو یہ کسی سختی کا پیغام سمجھا جاتا ہے ،میرو کو اس کے دستارکے بارے میں گھر سے ہی ایسی باتیں سننے کو ملی تھیں کہ وہ سیخ پاہوگیاتھا یہ وہم کسی پیشن گوئی کا واحد ذریعہ بن گیا تھا ۔ سو میرو اور میرو کے خاندان پر خودساختہ خوف طاری ہوگیا ۔
میرو رنجیدہ ہوگیا تھا بلکہ اب گہری سوچ میں بھی پڑگیا تھا۔شہر سے ڈھیر ساری چیزیں لانے کی خوشی بڑی اماں اور بختو کی غیر ارادی باتوں سے ماند پڑ گئی تھی ۔اکبر برابر چیزوں کو الٹ پلٹ کرکے دیکھ رہاتھا باقی سب سہم گئے تھے ۔بختو کمرے میں چلی گئی تھی ۔اسی اثناءمیں بختو کی اماں شیر چاہ سے بھری کیتلی (چاہ دان) لے آئی اس کے چہرے پر بھی خوف کے سائے نمودار ہوگئے تھے ،بڑی اماں نے چائے کا ایک گھونٹ لیا اور اپنی بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کی اور کہنے لگی ۔ 
میرو میرا بیٹا ہے،میرے بیٹے کا دستار میرے جسم کا کپڑا نہیں بن سکتا تو کفن کیسے بن سکتا ہے ؟میں نے تو یونہی یہ بات کہہ دی تھی ،اللہ نہ کرے میرو کے دستار پر کوئی حرف آئے ۔
اماں ایسی باتیں یونہی منہ سے نہیں نکلتیں ، ضرور کچھ ہوگا ، کچھ ایسا غلط نہ ہو کہ میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں ۔ میرو پر اماں کی وضاحت کا کچھ اثر نہیں ہوا
کچھ نہیں ہوگا ٰبختو کے ابا۔ہم نے پچھلے مہینے تو بکرے کا صدقہ کرایا ہے ،اور کہتے ہیں کہ خیرات سے بلا ٹل جاتے ہیں ،بیوی نے میرو کی ہمت باندھتے ہوئے کہا 
میرو نے کہا ، وہ تو ہم نے اکبر کی نظر اتارنے کیلئے صدقہ دیاتھا ، اس بار ضرورکوئی ایسی مصیبت آنی ہے جو میری عزت پر حملہ آور ہونے والی ہے کہ میری ماں اور میری بیٹی میری عزت (دستار ) کوکفن اور دفنانے کی باتیں کررہی ہیں ۔
بیوی نے کہا ، تمہاری عزت سے کوئی چیز ہمیں عزیز نہیں ،ان بکروں سے جو چاہواس کا بھی صدقہ دو۔
بکروں کا صدقہ تو دوں لیکن عزت پر حملہ آور مصیبتوں کا مقابلہ ایسا آسان نہیں ،اب نیا دستار کیسے پہنونگا ،مجھے تو خوف آرہا ہے کہیں نیا دستار پہنوں گاتو کچھ ہوجائے گا ۔
اللہ بخش کی نیت مجھے کئی دنوں سے ٹھیک نہیں لگ رہی ، وہ برسوں پرانی دشمنی نکالنے کی سوچ رہا ہے کہیں یہ اس کی طرف سے میری عزت پر حملہ کا اشارہ نہ ہو۔
کون سی پرانی دشمنی ؟
اس بار میرو کی ماں نے اپنی خفت سے نکلتے ہوئے پوچھا
میرو نے گہرے سوچ میں ڈوبتے ہوئے کہا 
اس کی بہن سے میں نے اپنی مہنگی توڑ دی تھی یہ کہہ کر کہ وہ عزت کے قابل نہیں 
کوئی بات نہیں بیٹا ، وہ فیصلہ لوگوں کے سامنے ٹکری دینو نے کیا تھااور جرگے نے فیصلہ بھی تمہارے حق میں کر کے اللہ بخش سے مہنگی کا پورا خرچہ تمہیں دلوایاتھا ۔
وہی تو اماں ،اب وہ مختلف بہانے ڈھونڈ رہا ہے بدلہ لینے کیلئے ۔بختو بڑی ہوگئی ہے مجھے اس کی فکر کھائے جارہی ہے ۔اللہ بخش درندہ ہے کچھ بھی کرسکتا ہے ۔
یہ سن کر اماں حقہ کا ہلکا سا کش لے کر خاموش ہوگئی ۔
میروکو پورا یقین ہوگیا تھا کہ اب اس سے کوئی نہ کوئی بدلہ لینے لگا ہے ،اب وہ ان لوگوں کے بارے میں سوچنے لگا جن سے اس کی ماضی میں کوئی عزت اور بے عزتی والا معاملہ پیش آیاتھا 
نصیر والے بھی اپنا بدلہ چکانے کا سوچ رہے ہونگے جوان کے خلاف بطور گواہ جرگہ میں پیش ہوا تھا ،لیکن وہ تو حقیقت تھی ان کی عورت کھیتوں میں پارگاﺅں والے اسد کیساتھ پکڑی گئی تھی اور صرف میں ہی گواہ نہیں تھا بلکہ چھ اور آدمی بھی گواہ تھے ۔گاﺅں کی غیرت کا معاملہ تھا ،میں کیسے پیچھے رہ سکتاتھا ۔ اور پھر وہ چوری کا معاملہ جہاں زرجان کے گھر کی عورتیں باغ میں چوری کی نیت سے آئی تھیں میں باغ کا رکھوالی تھا انہیں کیسے نہ پکڑتا ۔ میرو کے سامنے اس کے ایسے کارنامے تیزی سے ایک ایک کرکے آرہے تھے جو اس نے ماضی میں انجام دیئے تھے اور یہ کارنامے اس کے انجانے خوف میں مزید اضافہ کررہے تھے۔ اسے لگا پورا گاﺅں ہی اس کا دشمن ہے اور اس سے بدلہ لینے کے تاک میں ہے یہ سوچ سوچ کر میرو کی حالت ہی غیر ہوگئی تھی، اکبر بھی سب کو سہما ہوا دیکھتے ہوئے باہر کھیلنے گیا تھا جبکہ بختو کمرے میں بیٹھ کر اپنے باپ کی اس حالت کو دیکھ کر مزید خوفزدہ ہوتی گئی ۔ یہ آگ اس کی باتوں سے لگی تھی ،وہ اپنی چھوٹی منہ سے بڑی بات کہہ گئی تھی اور جس ممکنہ خطرے کی گھنٹی اس کی نادانی کی وجہ سے بجی تھی اس خطرے کا نشانہ بھی وہ بننے والی تھی تب تو اس کی ساری چینچل شوخ ادائیں ہوا ہوگئی تھیں ۔ اس کا چہرہ سرخ ہوگیاتھا ،جب باپ نے معاملے کو اس قدر سنگینی سے لیا تھا اور سب گھر والے سہم گئے تھے تو بختو کا خوفزدہ ہونا فطری امر تھا اور پھر وہ اس انجانے خوف کو جنم دینے والی بھی وہ خود تھی ، قبائلی رسم ورواج اور روایات سے نابلد بختو نے اپنی لاشعوری سے اپنے خاندان کی پوری عزت کی عمارت کو لرزہ دیا تھا،اسے یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ اس عالی شان عمارت کی بنیاد اس کے کمزور نسوانی کندھوں پر کھڑی ہے جسے اس نے اپنی معصومانہ اورلاشعور باتوں سے لرزہ دیاتھا، بختو کے ننے ذہن پر اس کا گہرا اثرتو ہونا تھا ۔اس کی معمولی سے بات اس کے گلے میں پھندہ بن کر پھنس گئی تھی ،اس کی چھوٹی سے بات پورے گھر کو غیر ارادی طورپر پراسرار خوف کا شکار بنادے گی اس کو اس کا قطعی اندازہ نہیں تھا،اسے یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ عزت کی یہ ان دیکھی عمارت کس قدراہم ہے اور کس قدر کمزور بھی اس قدر کمزور کہ جسے میری جیسی بچی کی باتیں اتل پتل کرسکتی ہیں ۔ توہم پرستی گالی ، غصہ اور ظاہری تعریف وتوصیف پر کھڑی یہ عمارت دھڑام سے نیچے گرنے والی تھی۔تب ہی وہ کمرے میں سہم کر بیٹھ گئی تھی ۔ماں نے چائے کی پیالی دی تو چائے پینے سے بھی انکار کردیا ۔
اب اندھیرا چھانے لگا تھا ،میرو کمرے میں آگیاتو بختو کمرے سے نکل کر کچن میں چلی گئی ۔اذان کی آواز سنائی دی تو میرو اٹھا وضوبنا کر نماز پڑھنے مسجد گیا،کچھ وقت بعد مسجد سے لوگ باہر نکل کر گھروں کی طرف جانے لگے جب مکمل اندھیرا چھانے لگا تو بختو کی ماں نے دسترخوان بچھایااور آواز دینے لگی۔ سب کھانا کھانے لگے لیکن بختو نہیں آئی ۔بختو آﺅ کھانا کھاﺅ ۔ماں نے دوبارہ آواز دی ۔
میرو نے کہا
کہاں ہے بختو کیا ہوا اسے ؟
اس بات کو لے کر بچی ڈر گئی ہے کہیں دھب کر بیٹھ گئی ہوگی ،یہ کہہ کر اس کی ماں کچن میں ڈھونڈنے گئی لیکن بختو وہاں بھی نہیں ملی 
ماں کا ماتھا ٹھنکا ،یہاں وہاں دیکھا ،مویشوں کے باڑے میں دیکھ آئی ، دروازے سے باہر جھانک کر گلی میں دیکھا لیکن بختو کہیں نظر نہیں آئی ۔بختو بختو ،ماں نے دو تین بلند آواز سے پکارا لیکن کوئی جواب نہیں آیا ۔
میرو بھی اٹھ کر دروازے پر آگیاتھا ،کہاں گئی بختو 
پتہ نہیں ،تمہارے مسجد جانے تک تو یہی گھر میں تھی ،پتہ نہیں کہاں چلی گئی 
میرو نے ساتھ ہمسائیہ کا گھر کھٹکھٹایا لیکن وہاں سے بھی جواب نہیں میں ملا 
بختو کو کیا ہوا ؟کون لے گیا اسے ؟ سارامعاملہ میرو کے ذہن میں پھر سے گھومنے لگا ۔پیشن گوئی واقعی سچ تو ثابت نہیں ہور ہی ۔کہیں اللہ بخش نے تو ۔۔۔۔۔
نہیں نہیں ، گھر سے میری بچی کو کیسے لے جاسکتا ہے اللہ بخش 
اب وہ دوبارہ گھر آکر سوچنے لگا کہ بختو کہاں جاسکتی ہے ؟
بیوی اور ماں نے کہا کہ فلاں فلاں کے گھر میں گئی ہوگی وہاں جا کر پتہ کرو 
میرو نے کہا نہیں نہیں ،اس طرح سے بات پھیل جائے گی ،اگر بختو کہیں گئی ہوگی تو آجائے گی اگر کوئی اور لے گیا ہے توتب بھی لوگوں کو کیا پتہ۔ بعد میں لوگ باتیں بنانے لگیں گے۔نہیں نہیں ہم کسی کے پاس نہیں جائیں گے ۔بس کچھ دیر انتظار کرینگے اس کے بعد خود جاکر ڈھونڈونگا اسے ۔کسی نہیں کچھ نہیں بتانا ۔
دستر خوان یونہی بچھا رہا ،پلیٹ میں گوشت کی بوٹیاں رکھی ہوئی تھیں لیکن سب مصیبت میں گرفتار ہوچکے تھے۔ اکبر بیٹھا بوٹیاں کھا ئے جارہاتھا ۔
میرو نے سوچا ،کرم خان کو بتادوں میرا راز دان ہے میرے ساتھ چل کر بختو کو ڈھونڈنے میں ساتھ دیگا ،لیکن ساتھ اس کے ذہن میں بدگمانی کی ایک لہر سی اٹھی ۔ایسے موقعوں پر کوئی کسی کیلئے باتیں دبا کر نہیں رکھتا میں خود ہی جاﺅنگا ڈھونڈنے ،لیکن کہاں کہاں جاﺅں ،اس وقت کسی نے اس طرح سے دربدر گھومتے دیکھ کر وجہ پوچھی تو کیا بتاﺅنگا ،سوال وجواب کاسلسلہ میرو کے ذہن میں جاری ہوچکاتھا جہاں سوال بھی خود سے پیدا ہورہے تھے اور ان کے جواب بھی میرو خود گھڑ ےجارہا تھا ۔ اس کے پاس وقت بعد کم ہے ،رات اور لڑکی کا غائب ہونامعمولی بات نہیں ۔گاﺅں میں میری عزت صبح تک دفن ہوچکی ہوگی ،یہ سوچ کر اس کے اعصاب شل ہوتے جارہے تھے ،اس نے سرپر ٹو پی پہنی اور گھر سے نکل گیا ،بیوی نے قرآن اٹھا کر سینے سے لگایا ۔دادی اماں بھی اپنے طورپر دم درود میں لگ گئی 
میرو پہلے مسجد کی طرف گیا ،وہاں مسجد کے طالب گاﺅں سے زیرہ اکٹھا کرکے مولوی کے ہجرے کی طرف جارہے تھے ،میرو نے سوچا ان سے پوچھوں لیکن پھر دل میں خیال آیا کہ یہ جا کر ملا کو بتا دینگے ملا عشاءکی نماز پر تمام نمازیوں کو یہ خبر سنا کر صبح ہونے سے پہلے ہی گاﺅں کے لوگوں کو میری عزت کے دفن ہونے کا قصہ سنائے گا ۔
میرو یہاں گیا وہاں گیا ۔ میر کے ٹیوب ویل پر گیا،ایک بار سوچا اللہ بخش کے گھر میں گھس کر اپنی بچی کا پتہ کرے پھر خیال آیا اگر اللہ بخش بختو کو لے گیا ہوگا تو اپنے گھر میں نہیں رکھے گا ،اس خیال سے پھر باغ گیا وہاں ٹارچ کی روشنی سے دیکھنے لگا ،دل نے چاہا زور زور سے بختو بختو پکارے پھر ڈر لگا کہ کہیں لوگ نہ سن لیں ، میرو مکمل طورپر بے بس ہوچکا تھا سوچا خود کسی کنویں میں کھود جائے اس کے علاﺅہ اس کے پاس کوئی چارہ ہی نہیں تھا ،لیکن ایک امید کے سہارے پھر سے گاﺅں کی گلیوں میں ڈھونڈنے لگا ،کوئی دیکھتا اور وجہ پوچھتا تو کہتا کہ بکرا رسی توڑ کر بھاگ گیا ہے اسے ڈھونڈ رہا ہوں۔ ورنہ صبح تک کتے کاٹ کھائیں گے اسے۔ لوگ اسے ڈھونڈنے کیلئے ممکنہ جگہوں کا کہہ کر آگے بڑھتے ،کیا ستم تھا کہ بچی کے کھونے کا کسی بتا بھی نہیں سکتا ۔اب بختو کی گمشدگی معمہ بن گئی تھی ۔میرو سوچتا وہ گھر چلا جائے شاہد اس وقت تک بختو گھر آگئی ہوگی لیکن پھر سوچتا کچھ آگے تک چل کر ڈھونڈ لے پھر واپس گھر چلاجائے ۔بالآخر لوگ عشاءکی نماز پڑھ کر اپنے گھروں کو جارہے تھے میرو نے گاﺅں کے دکان پر کھڑے ہوکر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ بھی نماز پڑھ کر ہی باہر نکلا ہے ،جونہی لوگ اپنے گھروں کو چلے گئے وہ اپنے گھر واپس آیا ۔ بیوی اور اس کی ماں بدستور قرآن سے لگ کر پریشان حال بیٹھی ہیں ۔
کیا ہوا ؟
کیا ہونا ہے بس صبح میری عزت کا جنازہ اٹھنے والا ہے ،میرو نے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے کہا 
یااللہ میری بچی صحیح سلامت مل جائے میں دو بکروں کا صدقہ دونگی ،بیوی نے کہا
اب بکرے میری سوئم (خیرات ) پر ہی صدقے کروانا ،میں عزت کے بغیر جی کرکیا کرونگا ،میرو نے پانی کا گھونٹ خشک حلق میں اتارتے ہوئے کہا 
ایسی باتیں نہ کرو بچی کسی صورت میں مل جائے تمہیں کچھ نہیں ہوگا ۔بیوی نے روتے ہوئے کہا 
تمہیں اپنی بچی کی پڑی ہے تمہاری بچی اگر اپنی مرضی سے کہیں گئی ہے یا کوئی اسے اٹھا کر لے گیا ہے وہ تو واپس آجائے گی لیکن میری عزت کا کیا ہوگا ،یہ سوچا ہے تم نے ؟میرو نے اپنی بیوی کو ڈانٹ پلائی 
بیوی روتی رہی اور زور زور سے دعائیں مانگنے لگی 
میرو ایک بارپھر اٹھا اور گلی میں دیکھنے لگا لیکن کچھ نظر نہیں آیا،گاﺅں کی گلیاں سنسان ہوگئی تھیں ،کتے باہر آگئے تھے اور ادھر ادھر غول درغول بھونکتے جارہے تھے ،گلیاں ان کی آواز سے گونج جاتیں ،میرو دیوانہ وار گلیوں میں گھستا رہا اور یہاں وہاں دیکھتا رہا لیکن کچھ بھی نظر نہیں آیا ،گاﺅں سے دور کچھ پاوالیوں (خانہ بدوشوں) کے گدان تھے سوچا وہاں جاکر دیکھ لوں وہ مجھے کیا جانتے ہیں وہ ویسے ہی یہاں کے رہنے والے نہیں ،اگر بختو وہاں گئی ہے تو وہ مجھے ضرور بتائیں گے میری ان سے کیا دشمنی ہے ،یہ سوچ کر اس کے قدم تیزی سے گدانوں کی طرف بڑھنے لگے ،یہ دیکھ کر ان کے شکاری کتے میرو کی طرف تیزی سے لپکے ۔ گدان والے کتوں کی اچانک لپکنے پر اٹھ بیٹھے دیکھا کوئی ان کی طرف ٹارچ لگا کرآرہا ہے ان میں سے بھی کچھ لوگ گدانوں سے نکل کر میرو کی طر ف آئے ۔ سلام دعا کے بعد میرو کی نظر غیر ارادی طورپران کے دستاروں پر پڑی تو اس کے سامنے ایک بارپھر دستار کی پوری داستان گردش کرنے لگی،میرو کو ان کے دستار اندھیرے میں بھی انتہائی صاف اجھلے اور بغیر پٹے پرانے محسوس ہوئے کیونکہ ان پر میرو کو ایسا کوئی داغ اور چھید نظر نہیں آیا جو میرو کی نئی دستار پرلگنے والے تھے ۔ میرو کی غیرت جاگ گئی اور اپنا ارادہ بدل لیا اس نے پاوالیوں (خانہ بدوشوں ) سے کہا اس کا ایک بکرا گم گیا ہے کہیں یہاں تو نہیں آیا ۔انکار سن کر میرو واپس مڑا اور تیزی سے گاﺅں کی طر ف آنے لگا ،وہاں سے گاﺅں خاموش اور پرسکون نظرآیاتھا ،میرو کو لگا بختو گاﺅں میں ہی کسی جگہ پرموجود ہے لیکن افسوس اسے یہ نہیں پتہ کہ اس کی بچی گاﺅں کے کس گھر میں قید ہے یا کہیں چھپ گئی ہے ۔وہ بار بار اللہ بخش کے گھر کی طرف دیکھتا کہیں وہاں سے چیخنے اور چلانے کی آواز تو نہیں آرہی ،کبھی کانوں کو خود سے ایسی آوازیں محسوس ہوتیں پھر دھیان سے سننے کی کوشش کرتا تو وہ آوازیں خاموش ہوجاتیں ،اب اس کے پاس کچھ ہی گھنٹے تھے یعنی مرغ کی آذان تک، اس کے بعد اسے گاﺅں میں یوں دیوانہ وار گھومنے پھرنے پر لوگوں کے کان کھڑے ہوجانے تھے اورپھر صبح سب کچھ واضح ہوجانا تھا ،صبح تک اللہ بخش اپنی درندگی کا ثبوت دے چکا ہوگا اور بختو کو کہیں پھینک کر چلاگیاہوگا ،اب وہ سوچ رہاتھا کہ بختو صبح کہاں سے ملے گی ،زندہ ملے گی یا کھیتوں میں اس کی بے حرمت لاش ملے گی ،اللہ بخش یا نصیر والے بختو سے کیا سلوک کررہے ہونگے ،کیا وہ بختو کی عزت تارتار کرکے اسے چھوڑ دینگے یا ماردینگے ،اب میرو کا ذہن بھی اس بلیک بورڈ کی طرح ہوگیا تھا جس پر ریاضی کا کوئی سوال حل کرتے ہوئے جمع تفریق حاصل ضرب کرتے کرتے اصل سوال کہیں کھو گیا تھا اور پورا بلیک بورڈ ” رف عمل“ بن گیا تھا ۔گویا اب اس میں مزید سوال لکھنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی ۔وہ دوبارہ گھر آیا ،وہی منظر پھر سے دیکھا ،بیوی قرآن سے لگی تھی ۔دادی اماں لیٹی ہوئی تھی لیکن نیند اس کی آنکھوں سے بھی کوسوں دور تھی ۔
پیدل گاﺅں کی گلیوں کو دوتین دفعہ چھان مارنے باغ مسجد اور پاوالیوں کے ہاں پہاڑی کے پاس جاتے جاتے میرو تھک گیا تھا اور پھر وہ کئی گھنٹوں سے اعصابی جنگ کا بھی شکار تھا ،اب وہ چارپائی پر لیٹ کر آنکھیں چھت پر گھاڑ دیں ایسے جیسا کوئی کوئی مرنے کے وقت بے بسی کے عالم میں اپنی آنکھیں یونہی چھت پر گھاڑ دے،بیوی قرآن کو سینے سے لگائے میرو کو دیکھ رہی تھی اور رو رہی تھی 
کتوں کی آواز اب دھیمی پڑ گئی تھی ۔مرغے آذان کیلئے پر پڑپڑ ارہے تھے ساتھ ہی ملا نے بھی آذا ن دینا شروع کردی ۔
آذان کا مطلب یہ تھا اب میرو کے پاس ٹائم ختم ہوگیاہے اپنی عزت بچانے کا ۔اب لوگ اٹھ چکے تھے ۔اب اس کے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھاکہ وہ بختو کو ڈھونڈ کر رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاکر اپنی عزت بچا لے ۔دن کی روشنی میں ایسا ممکن نہیں تھا کیونکہ تاریکی کاکام ہی غیر مرئی چیزوں کو شہ دینا ہے اور دن کی روشنی کا کام انہیں طشت ازبام کرنا ۔اس فطری اصول کا اب میرو پر پورا پورا اطلاق ہونا تھا ۔میرو نماز کیلئے مسجد بھی نہیں گیا ۔وہ سوچ رہاتھا کہ وہ گاﺅں چھوڑ کر چلا جائے لیکن جائے تو کہاں جائے ۔ایسے ممکنہ وغیر ممکنہ طریقوں پر سوچ کر وہ بالکل پاگل پن کی حد تک جاچکاتھا ۔
ادھر بختو مغرب کی نماز کے بعد اپنے آپ کو اس انجانے خوف کا ذمہ دار ٹھہرا کر گھر سے نکل گیاتھا وہ کیا کرنے جارہی تھی اور کہاں جارہی تھی اور اس کا کیا نیتجہ نکلے گا یہ اسے بھی پتہ نہیں تھا عین اسی طرح جس طرح سے دستار کو دفنانے والی بات اس نے بغیر سوچے سمجھے کہی تھی ۔وہ اپنے گڈے گڑیوں کو بھی اٹھا لایاتھا اپنے ساتھ ،وہ سیدھا جگنو کے پاس چلا گیا ۔اس نے تمام گڈے گڑیوں کو ان کے قبرستان میں دفنا دیا ۔اس بار وہ بڈھے گڈے گڑیوں کو نہیں دفنا رہی تھی بلکہ وہ تمام گڈے گڑیوں (دتکوں ) کو دفنا رہی تھی گویا اپنی چھوٹی سی دنیاکو دفنا رہی تھی ۔ وہ پتھر دل ہوگئی تھی۔ گڈے گڑیوں کو دفنانے کے بعد وہ لٹکی ہوئی رسی کے سہارے جگنو کے اوپر چڑھ گئی تاکہ اسے کوئی دیکھ نہ سکے ،جب تک کچھ روشنی باقی تھی وہ جنگو کے مزید اوپر کی شاخوں پر چڑھنے لگی تاکہ کوئی اسے دیکھ نہ لے ۔شاہد اب نیچے جانے کے سارے راستے خود بختو بند کرچکی تھی اب وہ اس شاخ پر پہنچ گئی تھی جس پر کچھ پرندے رات بسر کرنے کیلئے اپنے پروں میں چونچ ڈالے سورہے تھے ۔بختو آج ان پرندوں سے اس قدر قریب تھی جس کی وہ کئی وقتوں سے خواہش کرتی رہی تھی کہ وہ ان کو قریب سے دیکھ سے اور ان کو چھو سکے لیکن آج وہ ان سے بے نیاز ہو کر ساتھ والی نسبتا مضبوط شاخ پر بیٹھ گئی ۔کچھ دیر جب روشنی مکمل طورپر اوجھل ہوگئی اورتاریکی نے اپنے سیاہ اور گنے پر پوری فضاءمیں پھیلا دیئے ۔چار سو اندھیرا چھا گیا تھا ۔ بختو کے ذہن سے اندھیرے کا خوف نکل چکاتھا ،ہوا چلنے سے پتے سرسرانے لگے ، عجیب موسیقی پیدا ہورہی تھی ،رات گہری ہوتی گئی ،گاﺅں سو گیا تھا ،بختو میرو اور اپنے گھر والوں سے بے خبر درخت پر چڑھی ہوئی تھی وہ اب بے خودی میں تھی ،گہری رات میں وہ کبھی صحن میں جانے سے ڈرتی تھی لیکن وہ آج جگنو پر زمین سے کئی فٹ اوپر گھپ اندھیرے میں ایک شاخ پر بے خوف بے حس و حرکت بیٹھی ہے اس کا ذہن اور شعور مائوف ہوگئے تھے، اسے جگنو پر اچھا خاصا وقت گزرگیا تھا ۔گہری رات میں ہوا کے تیز جھونکے آنے لگے تھے جس سے درخت کے شاخ حرکت میں آنے لگیں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہوا کا ایک زور کا جھونکا آیااور بختو والی شاخ کوزور کی جنبش دی ،بختو اپنا توازن کھو بیٹھا ،ایک دم سے وہ اپنے حواس پر کنٹرول کرنے لگا لیکن اب وہ نیچے کو آنے لگی تھی ۔ایک شاخ سے ٹکرائی دوسری سے ٹکرائی ،ننے ہاتھوں سے شاخوں کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن اس کے ہاتھ پھسلتے گئے ،وہ شاخوں میں پھنستی رہی پھر گرنے لگی ۔اب شاہد وہ بچنے کی بھرپورکوشش کررہی تھی لیکن کوئی ترکیب کام نہیں آرہی تھی ۔بالآخر درمیان میں تنے سے بختو کا سرزور سے ٹکرا گیا اور وہ لڑکھڑاتا ہوا زمین پر گر گئی ۔
صبح نمازی نماز سے فارغ ہوگئے نمازی ایک ایک کرکے گھروں کو لوٹنے لگے تو کرم خان گھروں کے عقب کے راستے سے آنے لگا شاہد وہ رفع حاجت کیلئے پہاڑی کے پاس خشک ندی کی جانب جارہاتھا۔جونہی وہ جگنو کے پاس پہنچا تو اس کی نظر بختو پر پڑی ،وہ بختو کی طرف لپکا ۔جسم کب کا ٹھنڈا ہوچکا تھا ،کپڑے شاخوں میں پھنسنے کی وجہ سے تارتار ہوچکے تھے ،جسم لہولہان ہوچکاتھا ۔
کرم خان کے قدم تیزی سے میرو کے گھر کی جانب بڑھے ۔
تھوڑی دیر بعد میرو لاش کے قریب بیٹھا اپنی مری ہوئی عزت کو دیکھ رہاتھا 
کسی نے بچی کیساتھ زیادتی کی اور اسے یہاں پھینک کر چلاگیا 
کوئی درندہ ہی ہوگا ،درندگی کے بعد بچی کو مار کربھاگ گیا ہے 
دیکھو کپڑوں کو کس بے دری سے بچی کے جسم سے چھیرا ہے ظالم نے 
سر پر چھوٹ لگی ہے ،لگتا ہے بیلچے سے وار کیاہے 
بختو کی عمر ہی کیا تھی ،تو بہ توبہ کیا زمانہ آگیا ،ایسی گندگی نظر آخر کس کی پڑی ہوگی بختو پر
لڑکی کا کسی سے کوئی چکر وکر تو نہیں تھا ۔ہوسکتا ہے کسی نے بھگانے کی کوشش کی ہو ،ناکامی پر اپنا منہ کالا کرکے اسے قتل کرکے پھینک کر چلا گیا ہوگا 
جتنی منہ اتنی باتیں ،ہر کوئی اپنی بات کہے جارہاتھا 
یہ کا م میرو کے کسی دشمن کا ہی لگتا ہے ۔ کسی اور نے بھی اپنی رائے دی ۔ 
یہ سن کر میرو نے کہا 
اللہ بخش 
اللہ بخش ،وہ کیوں ایسا کریگا ؟ کسی نے مجمع کو چھیر کر آگے بڑھتے ہوئے کہا 
وہ مجھ سے اپنا پرانا حساب چکتا کرنا چاہتا تھا میں نے اس کے بہن کو چھوڑ دیاتھا ،میرو نے کہا 
ارے لیکن اس بچی کیساتھ وہ ایسا کیوں کریگا ؟
کافی دنوں سے وہ اس تھاک میں تھا ،میرے گھر کے آس پاس بھٹکتا رہا ہے 
جب میرو اللہ بخش کو قاتل ٹھہرا رہاتھاتو مجمع میں سے کسی نے کہا ۔ اللہ بخش تو شہر گیا تھا اپنی بیوی کو لے کر ، رات اسے بچی پیدا ہوئی ہے 
میرو نے کہا 
پھرنصیر نے ایسا کیا ہوگا 
شیرو کی نظر بھی بری تھی 
شاہنواز بھی ایسا کرسکتا ہے 
ادو نے بھی گھر سے نکلنے پر کئی دفعہ بختو کا پیچھا کیاتھا 
میرو نام لئے جارہاتھا اور الزام دھرتا جارہاتھا
لوگ اس کی حالت کو سمجھتے ہوئے چھپ ہوگئے 
لوگوں نے بختو کی لاش کو عورتوں کی طرف منتقل کردیاتاکہ غسل وغیرہ دیاجاسکے 
میرو قبر بنانے کیلئے بندے بھیج دیئے ہیں ،مولوی نے کہا 
اس کی قبر گھر کے پیچھے والے قبرستان میں بنے گی 
پیچھے والے قبرستان ؟یہاں کونسا قبرستان ہے ؟مولوی نے پوچھا 
بختو کی بنائی ہوئی قبرستان 
وہ خود قبرستان بنا گئی ہے ۔
بڑا قبرستان پہلے سے آباد تھا ،اپنے دفن ہونے سے پہلے اپنی معصوم سی خواہشات پر مبنی دنیا بھی دفن کرگئی تھی ۔اب خود دفن ہونے جارہی تھی ۔
یہ لوکفن 
میرو نے اپنا نیا دستار غسل دینے والی عورت کو تھما دیا
قبر میں اتارتے ہی میرونے پرانا دستار بھی بختو کے پہلو میں ڈال دیا

اور دونوں ہاتھوں سے تیز تیز مٹی ڈالنے لگا ۔۔۔۔۔